پاکستان میں نجکاری کا عمل ملکی معیشت کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ نجکاری کے بارے میں پالیسی سازی کا ابتدائی کام سنہ 1980 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوا تھا لیکن اس کا باقاعدہ اور منظم آغاز جنوری 1991 میں ہوا جب سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا پہلا دور تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری مکمل، 135 ارب میں سے حکومت کو کتنی رقم ملے گی؟
اس دور میں نجکاری کمیشن قائم کیا گیا جس کا بنیادی مقصد معیشت کو ڈی ریگولیٹ کرنا اور حکومتی تحویل میں چلنے والے خسارے کے شکار یا غیر ضروری اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کرنا تھا۔
گزشتہ 3 دہائیوں میں بینکاری، ٹیلی کمیونیکیشن، توانائی اور صنعت سمیت مختلف شعبوں میں 170 سے زائد ٹرانزیکشنز مکمل کی گئی ہیں جن میں بینکاری اور مالیاتی شعبہ سر فہرست ہے اور یہ نجکاری کا سب سے کامیاب شعبہ سمجھا جاتا ہے۔
حکومت نے زیادہ تر بڑے کمرشل بینکس نجی شعبے کو فروخت کر دیے جن میں مسلم کمرشل بینک، الائیڈ بینک لمیٹڈ، حبیب بینک لمیٹڈ، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ شامل ہیں۔
مزید پڑھیے: نجکاری کمیشن بورڈ کا اجلاس: پی آئی اے کے لیے عارف حبیب کنسورشیم کی بولی کی منظوری
بات کی جائے ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر کی تو اس میں سب سے بڑا اور واحد نام پی ٹی سی ایل کا ہے یہ پاکستان کی نجکاری کی تاریخ کے بڑے سودوں میں سے ایک ہے۔
سال 2005-2006 میں پی ٹی سی ایل کے 26 فیصد حصص اور انتظامی کنٹرول اتصالات کو فروخت کیا گیا۔
3 توانائی اور بجلی میں سب سے پہلے کے الیکٹرک کا ذکر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔
کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے اس ادارے کی نجکاری سنہ 2005 میں کی گئی تاکہ اس کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔ کوٹ ادو پاور کمپنی کے حصص اور انتظامی کنٹرول کی نجکاری کی گئی۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کے نجکاری عمل میں شفافیت اور قومی مفاد کو یقینی بنایا گیا، مشیر نجکاری کمیشن
حکومت نے او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے کچھ حصص اسٹاک مارکیٹ کے ذریعے فروخت کیے اسے جزوی نجکاری یا Divestment کہا جاتا ہے۔ سنہ 1990 کی دہائی میں بہت سے صنعتی یونٹس نجی شعبے کو دیے گئے جس میں سیمنٹ فیکٹریاں، مثلاً ڈیرہ غازی خان سیمنٹ، ماپل لیف سیمنٹ وغیرہ شامل ہیں، کھاد بنانے والے کارخانے جیسا کہ پاک عرب فرٹیلائزرز، پاک سعودی فرٹیلائزرز آٹوموبائل انڈسٹری میں پاک سوزوکی موٹرز کے حکومتی حصص کی فروخت شامل ہے۔
اس حوالے سے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے معاشی ماہر سلمان نقوی نے کہا کہ پی آئی اے کی کامیاب نجکاری پر حکومت پاکستان مبارک باد کی مستحق ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نجکاری اس وقت ملک کے بقا کے لیے نہایت ضروری ہے، 80 کے قریب ایسے حکومتی ادارے ہیں جو کم سے کم 1 ہزار ارب روپے ایک سال میں خسارہ کر رہے ہیں اور یہ وہ ایک ہزار ارب روپے ہیں جو ٹیکس ادا کرنے والے دے رہے جو خسارے کی نذر ہو جاتا ہے اور یہ 80 کمپنیاں حکومت پاکستان پر اس وقت بوجھ ہیں ماضی میں جن اداروں کی نجکاری ہی گئی ان کو چلانے کے لیے حکومت کو اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا تھا لیکن آج وہ ادارے نجکاری کے بعد بھرپور فائدے میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پی آئی اے میں بہت زیادہ پوٹینشل، 100 فیصد شیئرز خریدنا چاہتے تھے: عارف حبیب
سلمان نقوی نے مزید کہا کہ اور خسارے کے یہ شکار ادارے نجکاری کے بعد 300 ارب روپے کا ٹیکس ریونیو حکومت پاکستان کو دے رہے ہیں لہٰذا نجکاری اس ملک کی بنیادی ضرورت ہے۔
معاشی تجزیہ کار تنویر ملک نے وی نیوز کو بتایا کہ بات کی جائے حالیہ نجکاری کی تو پی آئی اے وہ ادارہ ہے جو مسلسل 2 عشروں سے خسارے کا شکار تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ سابق گورنر محمد زبیر نے انہیں بتایا کہ سنہ 2004 میں سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں پی آئی اے نے منافع کمایا تھا، 50 سے 60 ارب روپے پی آئی اے کو چلانے ہے لیے حکومت دیتی ہے تا کہ یہ ایئر لائن چلتی رہے۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کی نجکاری پر خیبرپختونخوا حکومت کا شدید ردعمل، وفاقی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ
تنویر ملک نے کہا اس نجکاری کے حوالے سے سوال بہت سے اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن یہ تو طے ہے کہ حکومت پاکستان سالانہ 50 سے 60 ارب محفوظ کر لے گی جو خسارے میں جا رہے تھے۔













