بلوچستان میں پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کہاں غائب؟

جمعرات 25 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

9 مئی کے واقعات کے بعد مرکز کی مستحکم سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا شیرازہ تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے لگا۔ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرنے کے علاوہ سیاست تک کو خیر باد کہہ دیا۔ تبدیلی کی اس ہوا نے بلوچستان کا بھی رخ کیا اور ایک تیز آندھی کی طرح پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر مبین خلجی کو بھی لے اڑی۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں تحریک انصاف پہلے ہی کمزور وکٹ پر تھی تاہم 9 مئی کے واقع نے جماعت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ حال ہی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر مبین خلجی نے پارٹی سے راہیں جدا کر لیں۔

ایوان میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر نصیب اللہ مری نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے واضع موقف دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

صوبائی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کے منصب پر فائر بابر موسیٰ خیل نے تاحال پارٹی کو خیر باد کہنے سے معلق کوئی واضع موقف نہیں دیا لیکن ذرائع بناتے ہیں کہ بابر موسیٰ خیل بھی پارٹی سے جلد علیحدہ ہوگے۔

قومی اسمبلی کی بات کی جائے تو 2018 انتخابات میں بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 2 نشستوں پر پی ٹی آئی کے قاسم خان سوری اور خان محمد جمالی کامیاب ہوئے جبکہ منورہ منیر مخصوص نشست پر ایوان کا حصہ بنیں۔ خان محمد مری ابتداہی دنوں سے ہی پارٹی میں متحرک نہیں رہے تاہم اس وقت خان محمد مری کی پارٹی سے وفاداری کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں اس طرح منورہ منیر سے پارٹی چھوڑنے سے متعلق سوال وہ نیوز کی جانب سے کیا گیا لیکن انہیں نے بھی واقع موقف نہیں دیا۔ منورہ مینر کوئٹہ میں ہی موجود ہیں۔ بات کی جائے اگر پی ٹی آئی کے قاسم خان سوری کی تو وہ سیاسی طور پر وفاق میں متحرک رہے جبکہ بعض لوگ انہیں عمران خان کا نائب تصور کرتے تھے۔

قاسم خان سوری کی جانب سے تاحال کوئی پارٹی چھوڑنے واضع موقف سامنے نہیں آیا 9 مئی واقعات کے بعد سیکیورٹی فورسز نے قاسم سوری کی رہائیش گاہ پر چھاپہ مارا جس میں قاسم سوری کے بھائی بلال سوری کو حراست میں لیا گیا۔ چند روز قبل قاسم سوری کے بھائی ہاشم اور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ اور بتایا کہ ہمارے گھر میں صرف قاسم سوری کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔

سنہ 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے جہاں دیگر صوبوں میں کامیابی کی نئی داستان رقم کی وہیں بلوچستان میں عمران خان کا جادو نہ چل سکا۔ صوبے میں 6 جنرل اور ایک مخصوص نشست پر پاکستان تحریک انصاف کے کامیاب قرار پائی تاہم ابتدائی دنوں سے ہی پاکستان تحریک انصاف کے قدم ڈگمگاتے رہے۔

سنہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے عمران خان کے اختلافات کھل کر سامنے آنے لگے جس کے بعد سردار یار محمد رند نے اپنی راہیں پی ٹی آئی سے جدا کر لیں۔ سردار یار محمد رند کے ساتھ مخصوص نشست پر آنے والی فریدہ بی بی اور نعمت اللہ زہری سردار یار محمد رند کی پشت پر لبیک کہتے رہے اسی طرح وقتا فوقتاً پارٹی کے صوبائی عہدیدار علیحدگی اختیار کرتے تھے۔

بلوچستان میں گزشتہ چند ماہ سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ جاری ہے جس میں بڑی تعداد میں سیاسی و قبائلی شخصیات پاکستان پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا رخ کر رہی ہیں ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ صوبے میں کسی اہمیت کا حامل نہیں ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp