بھارتی وزیر اعظم کے دورہ آسٹریلیا کا مزہ کس نے خراب کیا؟

جمعہ 26 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حالیہ دورہ آسٹریلیا کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا یوں تو سڈنی ہاربر پر گرمجوشی کے ساتھ خیرمقدم کیا گیا تاہم سول سوسائٹی نے بھارت میں پابندی کی زد پر آئی برطانوی نشریاتی ادارے کی دستاویزی فلم کی پارلیمنٹ ہاؤس میں نمائش کرکے یہ مزہ کچھ کرکرا کردیا۔

آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے اپنے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کا تعارف سڈنی میں تقریباً 20 ہزار حاضرین کی ایک تقریب میں کرایا جس میں دونوں رہنماؤں نے ہندوستانی پرچم کے رنگوں میں جگمگاتے سڈنی اوپیرا ہاؤس کے سامنے تصویریں بھی کھنچوائیں۔

لگ بھگ اسی وقت تقریباً 50 لوگوں نے آسٹریلیا کے پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک دستاویزی فلم کی نمائش میں شرکت کی۔ دستاویزی فلم ’انڈیا: دا مودی کوئسچن‘پر بھارتی حکومت نے ’معروضیت سے عاری‘ ہونے کے نام نہاد عذد کے باعث پابندی عائد کررکھی ہے۔

 

 

برطانوی نشریاتی ادارے کی تیارکردہ اس دستاویزی فلم میں 2002 کے گجرات فسادات میں وزیر اعظم مودی کے مبینہ کردار کی کھوج کی گئی تھی، جس میں 1 ہزار سے زائد افراد مارے گئے، جن میں بیشتر مسلمان تھے۔

دی گرینز پارٹی کے سینیٹر جورڈن اسٹیل جون نے دستاویزی فلم کی نمائش کے لیے جمع ہونیوالے مجمع سے خطاب میں بتایا کہ آسٹریلوی وزیر اعظم سے ان کی مایوسی یہ جاننے کے بعد صحیح معنوں میں حقیقی غصے میں بدل گئی ہے، جب انہیں علم ہوا کہ انتھونی البانیزانسانی حقوق کی صورتحال کا موضوع اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ زیر بحث نہیں لائے۔

دارالحکومت کینبرا میں دستاویزی قلم کی نمائش کے اس نسبتاً چھوٹے اجتماع، جس کا جزوی اہتمام ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کیا تھا، نے بھارتی وزیر اعظم کے آسٹریلیا کے دورے کے دوران ان کے ساتھ براہ راست انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور آزاد صحافت پر کریک ڈاؤن کے الزامات اٹھانے کے مطالبات کو سنا۔

انگلش نژاد آسٹریلوی سینیٹر جورڈن اسٹیل جون نے تسلیم کیا کہ جب انسانی حقوق پر بات کرنے کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے تو مغربی ممالک اکثر دوہرے معیار کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے مقامی آسٹریلوی باشندوں کو پہنچنے والے مصائب اور ان کے ملکی دولت اور وسائل سے منظم اخراج کا حوالہ دیا۔

 

 

’ہم ہندوستانی قوم کے ساتھ اپنے تعلقات کی گہری قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں…اس رشتے کا ایک جزو انسانی حقوق جیسی صورت حال کے بارے میں تنقیدی رویہ کا بھی متقاضی ہوتا ہے۔ ہمیں کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ ہندوستان کے حوالے سے بھی اور آسٹریلیا کے حوالے سے بھی۔‘

سینیٹرجورڈن اسٹیل جان نے کہا کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم میں بیان کردہ بہت سے حقائق آسٹریلوی پارلیمنٹ کی اس عمارت سے وابستہ سیاسی رہنماؤں کے کردار کی بھی عکاسی کرتے ہیں، جو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو درپیش امتیازی سلوک سے متعلق ہے۔

 

بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی تجارت، کاروبار، سرمایہ کاری اور ہجرت پر دو طرفہ بات چیت کے لیے آسٹریلیا کا تین روزہ دورہ مکمل کر چکے ہیں۔

دستاویزی فلم میں کیا ہے؟

بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی اس وقت بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے طویل عرصے سے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے پولیس کو مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ 2012 میں ایک خصوصی تحقیقات نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کے خلاف کوئی خاطر خواہ ثبوت نہیں تھے۔

لیکن یہ الزامات رواں برس جنوری میں دوبارہ سامنے آئے جب بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ نے برطانوی حکومت کی ایک پرانی رپورٹ سے پردہ اٹھایا۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق نریندرمودی فسادیوں کے لیے طرح کے ’قانون سے استثنٰی کا ماحول‘ پیدا کرنے کے لیے براہ راست ذمہ دار تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت ریاست گجرات میں مہینوں پر مشتمل تشدد کی مہم نسل کشی کے تمام نشانات سے عبارت ہے، جس میں منظم طریقہ سے مسلم خواتین کی عصمت دری بھی شامل تھی۔

دستاویزی فلم میں الزام لگایا گیا ہے کہ برطانوی حکام نے ذرائع سے بات کی تھی جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ نریندر مودی نے پولیس افسروں سے ملاقات کی اور انہیں تشدد میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔ نریندر مودی نے ہمیشہ ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے دستاویزی فلم پر پابندی لگانے کے لیے ہنگامی اختیارات کا استعمال کیا جب کہ فلم پر تنقید کرتے ہوئے اسے بی بی سی کی جانب سے معروضیت کی کمی اور مسلسل نوآبادیاتی ذہنیت کا پر تو کہا گیا۔

اس کے فوراً بعد نئی دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر پر محکمہ ٹیکس کے اہلکاروں نے چھاپے مارے جس میں ان کا اصرار تھا کہ یہ ایک غیر متعلقہ تحقیقات تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp