ایک پروفیشنل صحافی ہونے کی حیثیت سے عمران ریاض خان صاحب کی طرز صحافت سے بلکل متفق نہیں ہوں۔ ان کے بلخصوص، یوٹیوب پر مواد نے ہمیشہ پریشان کیا۔ وہ شائد بھول گئے تھے کہ صحافی اور سیاسی کارکن میں کیا فرق ہے۔
لیکن ان سب کے باوجود مجھ سمیت پاکستان کے بیشتر صحافی عمران ریاض کے اس طرح غائب ہونے پر چپ نہیں ہیں۔ کوئی کسی کا کتنا بھی مذاق بنائے لیکن لا قانونیت سبھی کو ڈرا دیتی ہے ۔ پاکستان میں اس وقت خوف ہے کب کس غلطی پر غائب کر دیا جائے۔ ایسی اقدامات سے آنے والی نسلوں کا اعتماد بھی کم ہو گا۔ معاشرے میں خطرناک تقسیم نے اختلاف رائے کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے جس میں انا قانون سے زیادہ مضبوط ہے۔ عمران ریاض سے لاکھ اختلاف رکھیں ۔ اگر ان کے خلاف کاروائی بنتی ہے تو وہ بھی کریں لیکن باقائدہ پراسیس کے ذریعے ۔ میری یہ تحریر ان سب کے لیے ہے جن کو انگریزوں کے پُرانے قوانین کے تحت سیاسی طور پر نشانہ بنایا گیا۔
نقص امن کے قانون نے کہاں کہاں نظام میں نقص ڈال دیا ہے اس پہ ہم بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں- کل عمران ریاض کے حامی اپنے ناقدین کی عزتیں اچھالتے تھے لیکن آج انہیں ناقدین کو عمران ریاض کے بچوں کے لئے آواز اٹھانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ان کے بوڑھے باپ کا کیا قصور ہے؟ اسے پتہ کیوں نہیں چل سکتا کہ اسکا بیٹا کہاں ہے؟
عمران ریاض خان کی اہلیہ کیمرے میں دیکھ نہیں پا رہیں تھیں۔گھر والے ٹوٹ جاتے ہیں۔ گھر والے کس کے پاس جائیں۔ ایمان مزاری کا رونا اور کمزور پڑنا ، کیا آپ کو یقین آیا کہ اتنی تگڑی وکیل کیوں رو پڑی؟ کیوں کے اسکی ماں کی چیخیں سن لی اسنے۔۔۔ شریں مزاری سے بھی اختلاف رکھیں لیکن خواص جب عوام کو ڈرا دیں تو پیغام بڑا غلط جاتا ہے۔
فواد چوہدری کو گرفتاری سے بھاگتے دیکھ کے تکلیف بھی ہوئی اور وہ وقت یاد بھی آیا جب وہ اپنی ایک کال سے صحافیوں کو نوکری سے نکلوا دیتے تھے۔ فواد چوہدری جب پی پی پی میں تھے تو بڑے کھلے ذہن کے لگتے تھے لیکن ان کے ہر دور کی بڑی پارٹی کاُحصہ بننے نے ان کے اندر جمہوریت کو ختم کر دیا۔ عمران خان کے شدید ناقد رہے اور ایک مرتبہ جب میں نے عمران خان کا انٹرویو کیا تو انہوں نے مجھے مبارک باد دی اور کہا کہ “ بتول آپ نے تو عمران خان کو ایکسپوز کردیا، he is a stupid man”
میں نے ان کے اس رد عمل کو ایک معمولی سا فیڈ بیک سمجھا لیکن جب کچھ عرصے کے بعد وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے اور ذرا بھی میڈیا کی تنقید برداشت نہ کر سکے تو وہ ایک نئے فواد چوہدری بن گئے۔
جب انہؤں نے میرے چینل کی مینجمنٹ کو مجھے نوکری سے نکالنے کا دباوٓ ڈالا اور کم سے کم 6 ماہ تک آف ایئر رکھنے کا کہا تو مجھے یقین نہیں آیا کہ فواد چوہدری جو میرے شوز میں آتے رہے ، کئی د فعہ ان سے ملاقات ہوئی اور جب عمران خان کے انٹرویو کے بعد میرا شو بند ہوا تو وہ ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مجھ سے سب سے پہلے رابطہ کیا اور مظبوط رہنے کی نصیحت کی۔ ان کا مجھے کام سے روکنے کے لئے دباوٓ ڈالنا میرے لئے بہت حیران کن تھا۔
لیکن کسی بھی سیاست دان کی سیاسی گرفتاری نظام کو کمزور کرے گی۔جن کے لئے فواد چوہدری آواز نہیں اٹھاتے تھے آج وہ سب فواد چوہدری کے ساتھ ان کے اپنے جیسا سلوک نہیں کر رہے۔
عمران خان کے دور میں جن صحافیوں کی لسٹ تیار کی گئی تھی کہ نہ کام کریں نہ نوکری حاصل کر سکیں اس لسٹ پر عمل درآمد بھی آپ نے کروایا۔ لیکن آپ کو روتا ہوا دیکھ کر آپ کی بیٹیوں کی آپ کے لیے آواز کو سن کر بڑی تکلیف ہوئی، اس سب میں آپ لوگوں کا حصہ ہے ۔ جب تک ہر اقتدار والا اپنا حصہ ڈالنا نہیں چھوڑے گا کچھ نہیں بدلے گا ۔
۹ مئی کوُ جو کچھ ہوا اسی سے سبق سیکھ لیں ۔ میلیٹری کورٹس سے سزائیں تو سخت ملیں گی لیکن لوگوں کے ایک بڑے حصے نے جس غصے کا اظہار کیا ہے اس سوچ کو کیسے بدلیں گے؟
کیا اعتماد میں ایسے لیا جاتا ہے؟ جو گالیاں پی ٹی آئی کی خواتین کی طرف سے سنیں اس میں وہ مردوں کو مات دے چکی ہیں۔ اس کے باوجود انہیں بالوں سے پکڑ کر گرفتار کرنا درست نہیں۔
سزا سب کو دیں جس جس ادارے سے جو جو ملوث ہے سب کو دیں۔ سب کو سبق سیکھایں پھر نظر آئی گی اصل جمہوریت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جون ایلیا نے کہا۔۔۔۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ ہے کی آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی۔۔۔
اور میرے بٹے ہوئے صحافیوں کے لئے۔۔۔۔۔
حال یہ ہے کہ اپنی حالت پر ۔۔۔۔۔۔
غور کرنے سے بچ رہا ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔
کبھی مطیع الؔلہ جان تو کھی عمران ریاض خان۔۔۔۔۔
جناب طریقہ ٹھیک نہیں ہے ۔ اختلاف رکھیں ، تنقید کریں، ریڈ لائن کراس ہو توُقانونی کاروائی کریں ۔ لیکن غائب کرنے سے عوام ڈرنے لگے گی، عوام کا اعتماد نہ ماریں ۔۔۔۔ نہ کسی کو غائب کریں نہ جان سے ماریں۔۔۔۔۔۔
کچھ عرصے پہلے بھی لکھا تھا ۔۔۔ سر جی ڈرائیں نہیں بات کریں۔