پی ٹی آئی سینیئر رہنما پرویز خٹک، عمران خان سے خفا کیوں ہوگئے؟

ہفتہ 27 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعے کی نماز کی تیاری کے عین وقت پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی واٹس ایپ گروپس اور کچھ رہنماؤں کے ذاتی نمبرز پر نوشہرہ میں عنقریب پریس کانفرنس کے انعقاد اور اہم پارٹی رہنما کی ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت میں ممکنہ شمولیت کے اعلان کے حوالے سے اچانک میسج شیئر ہوا۔ واٹس ایپ پیغام میں کسی کا نام نہیں لکھا تھا لیکن ’کون ہو سکتا ہے؟‘ کے سوال پر تقربیاً سب ایک ہی نام لے رہے تھے۔

ہو سکتا ہے پرویز خٹک ہوں

تحریک انصاف کے ایک سینیئر رہنما نے میسج پڑھنے کے بعد وی نیوز کو بتایا کہ پارٹی کے اندرونی حلقے میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک تحریک انصاف کو چھوڑ دیں گے۔ پرویز خٹک سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور کوئی بھی سیاسی جماعت انہیں بخوشی قبول کر سکتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ سے قربت

تحریک انصاف کے رہنما نے، جو اندرونی معاملات سے واقف ہیں، وی نیوز کو بتایا کہ وفاق میں حکومت کے خاتمے کے بعد بھی پارٹی کے کچھ رہنما اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں تھے۔ پارٹی میں اس پر تحفظات بھی تھے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بات اس وقت منظر عام پہ آئی جب عمران خان کو پتا چلا کہ کچھ ساتھی تحریک انصاف کی صوبائی حکومتوں کو ختم کرنے کے خلاف تھے اور اب اسٹیبلشمنٹ سے مل کر خیبر پختونخوا میں محمود خان کی جگہ عاطف خان کو وزیراعلی بنانے کی مبینہ تیاری مکمل کر چکے ہیں۔

عمران خان کے فیصلے کے خلاف جانے والے افراد پرویز خٹک، فواد چوہدری، اسد عمر اور حماد اظہر تھے جنہوں نے مبینہ طور پر یہ تیاری کی تھی اور عاطف خان کو پیشگی مبارکباد بھی دے چکے تھے۔

باخبر پارٹی ذرائع کے مطابق جب عمران خان تک یہ  بات پہنچی تو وہ سخت ناراض ہوئے اور فوری طور پر اسمبلیاں توڑنے کا اصولی فیصلہ کر لیا۔

 تحریک انصاف کے رہنما کے الزام کے حوالے سے موقف جاننے کے لیے ان مذکورہ افراد سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن تاہم حال ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔

پارٹی کے اندر سے آوازیں

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں آنے لگی کہ کون اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہے۔ اس کے بعد سے پرویز خٹک، فواد چوہدری، اسد عمر اور حماد اظہر، عمران خان کی گڈ بک سے نکل گئے تھے۔

پنجاب کی وزراتِ اعلیٰ کے امیدوار

خان کی ان سے ناراضی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ حالیہ پنجاب اسمبلی کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم ہو رہی تھی تو فواد چوہدری اور حماد اظہر کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، حالانکہ دونوں وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدوار تھے۔

پرویز خٹک کا دُکھ

تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ اس کے بعد پرویز خٹک  کی جانب سے وفادریاں تبدیل کرنے کے حوالے سے باتیں زیر گردش تھیں۔  کچھ عرصہ قبل پرویز خٹک کی اہلیہ کا انتقال ہوا تو وہ  تعزیت کے لیے لاہور ہی میں مقیم تھے لیکن عمران خان نہ تو ان سے تعزیت کے لیے گئے اور نہ ہی انہیں تعزیتی فون کیا، جس کا پرویز خٹک کو دکھ تھا۔

کیا پرویز خٹک عمران کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں؟

تحریک انصاف کے باخبر رہنماؤں کے مطابق پرویز خٹک کافی عرصے سے پارٹی میں پہلے کی طرح سرگرم نہیں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے وقت اور بعد میں مظاہروں کے دوران بھی پرویز خٹک نظر نہیں آئے،  جبکہ 9 مئی کے بعد مکمل روپوش ہیں۔

پرویز خٹک ہوشیار سیاست دان ہیں

انہوں نے مزید بتایا کہ پرویز خٹک شاطر اور ہوشیار سیاست دان ہیں۔ وہ فیصلے بھی ہوا کا رُخ دیکھ کر کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں عام تاثر ہے کہ وہ حکومت میں آنے والی جماعت کا حصہ بن سکتے ہیں، جس کے لیے مقتدر حلقوں کی حمایت بھی اسے حاصل ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگر پرویز خٹک اور عمران خان میں ڈیل ہوگئی تو وہ کہیں نہیں جائیں گے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر پرویز خٹک، جہانگیر ترین سے مل کر خود کو قائد بنانے کی  کوشش کر سکتے ہیں۔

مذہبی سیاسی جماعت سے رابطہ

ایک اور ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ پرویز خٹک ایک مذہبی سیاسی جماعت سے رابطے میں ہیں، تاہم کچھ معاملات طے ہونا باقی ہیں۔

ذرائع کے مطابق موجودہ حالات میں پرویز خٹک کسی قوم پرست جماعت کا حصہ بننے کو ترجیح نہیں دیں گے۔  پرویز خٹک کے ایک قریبی ساتھی نے وی نیوز کو بتایا کہ 9 مئی کے بعد ان سے رابطہ ختم ہے۔ ان کی رائے ہے کہ اگر انہیں بے حد مجبور کیا گیا تو عمران خان اور پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان کر سکتے ہیں البتہ الیکشن آزاد حیثیت سے الیکشن میں جانے پر بھی غور کر سکتے ہیں۔

پرویز خٹک کا سیاسی سفر

73 سالہ پرویز خٹک  نوشہرہ کے منکی شریف میں اس وقت کے نامور گورنمنٹ ٹھیکیدار کے پاں پیدا ہوئے۔  پرویز خٹک اپنی ساسی سفر کا اغاز 1983ممبر ڈسٹرک کونسل نوشہرہ سے کیا تھا اور کامیابیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدا میں پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک تھے۔ پرویز خٹک وزیر آب پاشی اور دو مرتبہ وزیر صنعت و پیداوار بھی رہے۔

سال 2013 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف سے ممبر خیبر پختونخوا منتخب ہوئے اور پی ٹی آئی کے پہلے وزیراعلی بن گئے۔ 2018 کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور تحریک انصاف حکومت میں وزیر دفاع کا قلمندان دیا گیا۔

پرویز خٹک سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر اور عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے سیاسی فیصلوں میں عمران خان کو مشورہ بھی دیتے تھے۔ اور میٹنگ پر کھل کر مخالفت بھی کرتے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp