پاکستان کو پاک رکھنے والے

اتوار 28 مئی 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گزشتہ دنوں سندھ گورنمنٹ کا ایک اشتہار اخبار کی زینت بنا۔ ضلع سانگھڑ کے میونسپل کارپوریشن میں 51 مرد اور  10خواتین سینیٹری ورکرز کی اسامیاں خالی تھیں۔ اشتہار کا  متن کچھ یوں تھا:

51 مرد سینیٹری ورکر – چاق چوبند ۔ غیر مسلم

10 خواتین سینیٹری ورکر ۔ چاق چوبند – غیر مسلم

10 بیلدار ۔ پرائمری پاس ( مذہب اللہ جانے )

اس اشتہار میں بیلدار مذہب کی قید سے مستثنیٰ  تھے۔ ایسا اشتہار دینے والوں کی سوچ  کا کیا کہنا۔ لیکن صرف اشتہار دینے والوں کا رونا  ہی کیا روئیں ہم سب بچپن سے یہی سنتے، دیکھتے اور سمجھتے  آئے ہیں کہ غیر مسلم صرف اور صرف چوہڑا ہی ہو سکتا ہے۔

اگر ایسا ہے تو پھر یورپ، امریکا اور کینیڈا وغیرہ کے متعلق خیال ہے کہ جہاں کے باشندوں کی غالب اکثریت غیر مسلم ہے اور ہمارے معیار مطابق تو ان سب کو چوہڑا ہونا چاہیے۔

اب ذرا فرض کریں کہ ان ممالک کو بھاگ بھاگ کر جا بسنے والوں کے لیے بھی اگر وہاں کی سرکار ملازمتوں کے ایسے اشتہارات دینے لگے کہ ’ہیلدی سینیٹری ورکرز ریکوارئرڈ۔ اونلی مسلم کین اپلائی‘۔ تو کیا ہو؟

مملکت خداداد میں  دن رات ریاستی اداروں، حکومتی عہدیداروں اور مذہبی ٹھیکیداروں کی جانب سے بار بار یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ ملک میں جس طرح ایٹم بم محفوظ ہاتھوں میں ہے بالکل اسی طرح اقلیتوں کا تحفظ بھی ریاست کی پہلی ترجیح ہے۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کونسا تحفظ؟ کیسی عزت؟ کہاں کی برابری؟ سب کاغذوں پر لکھی باتیں ہیں جن کا دور دور تک عملی زندگی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

وہ جو ہمارا  گند اور کچرا اٹھا کر ہمارے گھر، محلوں کو صاف رکھتے ہیں انھیں ہم ’کچرے والے‘ کہتے ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سیوریج کا حال دگرگوں ہے۔ ہر علاقہ میں آئے دن گٹر اُبل رہے ہوتے ہیں، تو خود ہی اندازہ لگا لیں کہ بقیہ ملک کا کیا حال ہوگا۔

پاکستان میں آج بھی سیوریج کا قدیم نظام رائج ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے کئی دہائیوں قبل زیر زمین سیوریج لائنوں کے ایسے جال بچھا دئیے تھے کہ سینیٹری ورکروں کو اس میں اتر کر کام کرنے میں نہ کوئی قباحت محسوس ہوتی اور  نہ ہی وہ دم گھٹنے کا شکار ہوئے۔ حتیٰ کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں پوری پوری آبادیاں بم باری سے بچنے کے لیے ان سیوریج لائنوں میں  پناہ لیتی رہیں۔ یعنی نکاسی کے لیے زیر زمین ایک الگ شہر تعمیر کیا جاتا تھا۔

دوسری طرف ہمارے یہاں کروڑوں کی آبادی والے شہروں میں گٹر لائنیں اور مین ہول اتنے تنگ ہوتے ہیں کہ آئے دن اس غیر انسانی کام کے نتیجے میں سینکڑوں خاکروب اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کے اوائل سے ہی خاکروب کا پیشہ غیر مسلموں سے نتھی ہے۔ سندھ میں ہندو اور پنجاب میں عیسائی اس پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔

وفاقی حکومت نے اس پیشے سے وابستہ افراد کے لیے حال ہی میں 25 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ مختص کی ہے۔ لیکن بات اگر سندھ کے خاکروبوں کی جائے تو صورتحال خطرناک حد تک ابتر ہے۔

ٹھیکیداری نظام کے تحت ان محنت کشوں کی تنخواہ کا ایک بڑا حصہ ان اداروں کے شکنجے میں چلا جاتا ہے جو انہیں یہ روزگار مہیا کرتے ہیں۔ پاکستان کے مختلف شہروں اور بالخصوص کراچی میں کئی خاکروبوں سے براہِ راست ان کے حالات جاننے کا موقع ملا۔ ہر کہانی ایک سی معلوم ہوئی۔ ان کہانیوں کی چند جھلکیاں آپ بھی ملاحظہ کریں:

بنا کسی چھٹی کے ایک ماہ کی مشقت کا معاوضہ محض 15 ہزار روپے۔

کوئی انشورنس نہیں۔ نہ صحت کی نہ زندگی کی۔

بیمار ہونے کی صورت میں غیر حاضری پر تنخواہ سے کٹوتی الگ۔

دوران ملازمت جان سے گئے تو اللہ اللہ خیر سلا۔

حیرانی ہوتی ہے کہ ان خاکروبوں کی زندگی اس ملک میں اتنی ارزاں کیوں ہے؟

میونسپل کارپوریشن کے اشتہار میں غیر مسلم خاکروبوں کے  چاق چوبند ہونے کی جس طرح فرمائش کی گئی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ سرکار ان کی صحت کے حوالے سے کافی تشویش میں مبتلا ہے۔

ویسے تو اس ناانصافی اور غیر انسانی حالات پر ذہن میں کئی سوالات ہیں لیکن بالخصوص  اس اشتہار سے جڑے دو سوالات نے کئی دن سے ایک لا یعنی سی کیفیت میں مبتلا کیا ہوا ہے۔

صحتمندی، چابکدستی اور توانائی اچھی غذا اور مناسب علاج معالجے کی مرہون منت ہوتی ہے اور یہ بنیادی سہولیات پیسے کے بل پر میسر ہوتی ہیں۔

دوستوں آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ مہنگائی کے اس عالم میں صرف 15 ہزار روپے میں سندھ حکومت کو کہاں سے چاق چوبند خاکروب دستیاب ہوں گے ؟

دوسرا اہم مدعا خاکروبوں کا غیر مسلم ہونا ہے ۔ اگر مسلمانوں کا گند مسلمان صاف نہیں کرسکتا تو چترال سے سندھ تک غیرمسلموں کو کلمہ پڑھانے کی جو فیکٹریاں قائم کی گئیں ہیں اور مسلسل قائم کی جارہی ہیں تو خدارا انہیں بند کر دیجیے کیونکہ پھر تو یہ ایک کُھلا تضاد ہے۔

جیسا کہ اشتہار سے واضح ہے کہ خاکروب کا پیشہ مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے اور صرف غیر مسلم ہی اس شعبے میں نوکری کی درخواست دے سکتے ہیں۔ تو جو بچے کھچے غیر مسلم اس ملک میں رہ گئے ہیں وہی تو مستقبل کے خاکروب بنیں گے۔

آپ ہی سوچیے  کہ جنت جانے کے شوق میں ہمارے مذہبی طبقے نے اگر ان گنتی کے غیر مسلموں کو بھی مسلمان بنا دیا تو پاکستان کو پاک  کون کرے گا؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp