پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ تو خبر بناتی ہی ہے اس مرتبہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے نے خبر بنا ڈالی۔
عمران خان نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب سوا ایک بجے کی گئی ٹوئٹ میں کچھ ایسے مناظر شیئر کیے جن میں جلی ہوئی گاڑیاں دکھائی گئی ہیں۔
ویڈیو کے ساتھ سابق وزیراعظم نے لکھا کہ ’کراچی سے ہمارے رکن صوبائی اسمبلی ملک شہزاد اعوان پر پی ٹی آئی چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ جب انہوں نے انکار کیا تو ان کی گاڑیاں جلا کر تباہ کر دی گئیں۔‘
’پی ٹی آئی کے تمام ٹکٹ ہولڈرز اور حامیوں کو آج فسطائیت کا سامنا ہے۔ ہمارے بنیادی حقوق کھلے عام پامال ہو رہے ہیں جب کہ ہماری عدلیہ بغیرکسی مدد کے اسے دیکھ رہی ہے۔‘
جلی ہوئی گاڑیوں کی تصاویر اور ویڈیو شیئر کرنے والوں میں عمران خان اکیلے نہیں تھے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کا آفیشل ہینڈل اور پارٹی کے حامی دیگر اکاؤنٹس بھی شامل رہے۔
تحریک انصاف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی ’سندھ سے رکن اسمبلی کی جلائی گئی گاڑیوں‘ کے مناظر پر مشتمل دو ویڈیوز 28 مئی کی رات ساڑھے گیارہ بجے شیئر کی گئیں۔
ڈیلیٹ کیے جانے سے قبل ان مناظر کو پانچ لاکھ سے زائد افراد نے دیکھا جب کہ انہیں لائک، ری ٹوئٹ یا کمنٹ کرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں رہی۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ کی ٹائم لائنز سے ڈیلیٹ ہونے والی ٹویٹ کے اسکرین شاٹ شیئر کرنے والوں نے ویڈیو میں دکھائے گئے مناظر کو غلط قرار دیا تو لکھا کہ یہ ماضی میں پیش آنے والے واقعات کی تصاویر ہیں جنہیں اب استعمال کیا جا رہا ہے۔
https://twitter.com/kineticdoctrine/status/1662930561567019010
تحریک انصاف کی پالیسیوں کو غلط قرار دے کر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے حذف کردہ مناظر کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک اور جھوٹ پکڑا گیا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ جو مناظر شیئر کیے جا رہے ہیں یہ ایک برس قبل نوشہرہ کے تیل ڈپو میں لگنے والی آگ سے ہوئے نقصان کے ہیں۔
کل رات ایک اور جھوٹ پکڑا گیا۔
نوشہرہ کے تیل ڈپو میں ایک سال پہلے لگنے والی آگ کو پہلے سیاست ڈاٹ پی کے نے ٹویٹ کیا کہ
PTI MPA
کی گاڑیوں کو آگ لگی ہےپھر @PTIofficial اور عمران خان اکاونٹ نے یہی ٹویٹ کیا۔
لاکھوں لوگ گمراہ ہوئے اور پکڑے جانے پر بغیر معذرت کئے ٹویٹ ڈیلیٹ کردیا۔ pic.twitter.com/54PjVSEO4b
— Dr Farhan K Virk (@FarhanKVirk) May 29, 2023
عمران خان اور پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس سے غلط مناظر شیئر کرنے اور مٹائے جانے کے بعد مختلف افراد نے دعوی کیا کہ حالیہ دنوں میں ایسے ہی پروپیگنڈہ مناظر کو اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کے حامی ٹیلی ویژن میزبان صابر شاکر سے منسوب اکاؤنٹ سے بھی چند روز قبل ایک ایسی تصویر شیئر کی گئی جو بعد میں ماضی کے ایک واقعہ کی تصویر ثابت ہوئی۔‘
اسی دوران پی ٹی آئی کی حامی فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کی ایک تصویر بھی ٹائم لائنز پر زیرگردش رہی۔ اسے شیئر کرنے والے فرد نے خود کو سابق فوجی، سائبرسیکیورٹی اور مصنوعی ذہانت کے ماہر کے طور پر متعارف کرایا۔
شہزاد خالد نے دعوی کیا کہ ’سابق آرمی چیف کی نواسی اور پاکستان نژاد برطانوی ماڈل ماڈل خدیجہ شاہ کو جیل میں ایک سے زائد مرتبہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
پیر کی صبح لاہور پولیس کی ایس ایس پی شعبہ تفتیش ڈاکٹر انوش مسعود کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ’جیلوں میں خواتین سے زیادتی‘ کے کسی بھی واقعہ کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ ’ملزمہ خدیجہ شاہ کی صحت بالکل ٹھیک ہے۔‘
عمران خان اور تحریک انصاف کے اکاؤنٹس سے ٹوئٹس ہونے اور پھر ڈیلیٹ کیے جانے پر تبصرہ کرنے والوں کا موقف ہے کہ موجودہ نازک حالات میں اس طرح کی سرگرمی خود سابق وزیراعظم کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔