عمران خان نے ’پی ٹی آئی رہنماؤں پر تشدد اور عدلیہ سے شکوہ‘ کی ٹویٹ ڈیلیٹ کیوں کی؟

پیر 29 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ تو خبر بناتی ہی ہے اس مرتبہ ٹویٹ ڈیلیٹ کرنے نے خبر بنا ڈالی۔

عمران خان نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب سوا ایک بجے کی گئی ٹوئٹ میں کچھ ایسے مناظر شیئر کیے جن میں جلی ہوئی گاڑیاں دکھائی گئی ہیں۔

ویڈیو کے ساتھ سابق وزیراعظم نے لکھا کہ ’کراچی سے ہمارے رکن صوبائی اسمبلی ملک شہزاد اعوان پر پی ٹی آئی چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ جب انہوں نے انکار کیا تو ان کی گاڑیاں جلا کر تباہ کر دی گئیں۔‘

’پی ٹی آئی کے تمام ٹکٹ ہولڈرز اور حامیوں کو آج فسطائیت کا سامنا ہے۔ ہمارے بنیادی حقوق کھلے عام پامال ہو رہے ہیں جب کہ ہماری عدلیہ بغیرکسی مدد کے اسے دیکھ رہی ہے۔‘

imran khan deleted the tweet

جلی ہوئی گاڑیوں کی تصاویر اور ویڈیو شیئر کرنے والوں میں عمران خان اکیلے نہیں تھے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کا آفیشل ہینڈل اور پارٹی کے حامی دیگر اکاؤنٹس بھی شامل رہے۔

تحریک انصاف کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی ’سندھ سے رکن اسمبلی کی جلائی گئی گاڑیوں‘ کے مناظر پر مشتمل دو ویڈیوز 28 مئی کی رات ساڑھے گیارہ بجے شیئر کی گئیں۔

ڈیلیٹ کیے جانے سے قبل ان مناظر کو پانچ لاکھ سے زائد افراد نے دیکھا جب کہ انہیں لائک، ری ٹوئٹ یا کمنٹ کرنے والوں کی تعداد بھی ہزاروں میں رہی۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ کی ٹائم لائنز سے ڈیلیٹ ہونے والی ٹویٹ کے اسکرین شاٹ شیئر کرنے والوں نے ویڈیو میں دکھائے گئے مناظر کو غلط قرار دیا تو لکھا کہ یہ ماضی میں پیش آنے والے واقعات کی تصاویر ہیں جنہیں اب استعمال کیا جا رہا ہے۔

https://twitter.com/kineticdoctrine/status/1662930561567019010

تحریک انصاف کی پالیسیوں کو غلط قرار دے کر پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ نے حذف کردہ مناظر کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا کہ ’ایک اور جھوٹ پکڑا گیا۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ جو مناظر شیئر کیے جا رہے ہیں یہ ایک برس قبل نوشہرہ کے تیل ڈپو میں لگنے والی آگ سے ہوئے نقصان کے ہیں۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس سے غلط مناظر شیئر کرنے اور مٹائے جانے کے بعد مختلف افراد نے دعوی کیا کہ حالیہ دنوں میں ایسے ہی پروپیگنڈہ مناظر کو اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف کے حامی ٹیلی ویژن میزبان صابر شاکر سے منسوب اکاؤنٹ سے بھی چند روز قبل ایک ایسی تصویر شیئر کی گئی جو بعد میں ماضی کے ایک واقعہ کی تصویر ثابت ہوئی۔‘

اسی دوران پی ٹی آئی کی حامی فیشن ڈیزائنر خدیجہ شاہ کی ایک تصویر بھی ٹائم لائنز پر زیرگردش رہی۔ اسے شیئر کرنے والے فرد نے خود کو سابق فوجی، سائبرسیکیورٹی اور مصنوعی ذہانت کے ماہر کے طور پر متعارف کرایا۔

شہزاد خالد نے دعوی کیا کہ ’سابق آرمی چیف کی نواسی اور پاکستان نژاد برطانوی ماڈل ماڈل خدیجہ شاہ کو جیل میں ایک سے زائد مرتبہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘

'pakistani british model khadija shah raped in prison' tweeted by pti activist

پیر کی صبح لاہور پولیس کی ایس ایس پی شعبہ تفتیش ڈاکٹر انوش مسعود کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے ’جیلوں میں خواتین سے زیادتی‘ کے کسی بھی واقعہ کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ ’ملزمہ خدیجہ شاہ کی صحت بالکل ٹھیک ہے۔‘

عمران خان اور تحریک انصاف کے اکاؤنٹس سے ٹوئٹس ہونے اور پھر ڈیلیٹ کیے جانے پر تبصرہ کرنے والوں کا موقف ہے کہ موجودہ نازک حالات میں اس طرح کی سرگرمی خود سابق وزیراعظم کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp