گلگت بلتستان کے ’شق کھنگ‘ (قدیم تاریخی کچے مکان) مٹنے لگے

پیر 29 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

گلگت بلتستان کے علاقے خپلو میں اب بھی ’شق کھنگ‘ کے نام سے مشہور ایسے قدیم گھر موجود ہیں جو زلزلے، طوفان اور وقت کی تباہ کاریوں کو تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن آج کل کے جدید طرز تعمیر کو برداشت نہیں کر سکتے۔

عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق چنار اور بید کے درختوں کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے صدیوں پرانے مکانات شق کھنگ کے نام سے مشہور ہیں، گلگت بلتستان کا دلکش خطہ، خاص طور پر وادی باڑہ جہاں منفرد مکانات سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں آہستہ آہستہ معدوم  ہو رہے ہیں۔

شق مقامی بلتی زبان میں چنار اور بید کی ٹہنیوں سے ماخوذ ایک نام ہے۔ وادی باڑہ کے ایک 65 سالہ رہائشی محمد علی کے مطابق شق کو چنار اور بید کے درختوں سے بنایا گیا ہے۔ بیم، ستون اور دیواریں بھی انہی درختوں سے بنتی ہیں۔

محمد علی کے مطابق یہ قدرتی تعمیراتی مواد گرمیوں میں گھروں کو ٹھنڈا اور سردیوں میں گرم رکھتا ہے۔ تقسیم پاک و ہند سے پہلے کے بنے گھروں کو بڑی تعداد میں سیاح دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔

باڑہ کے رہائشی 75 سالہ غلام محمد کے مطابق ’شق کھنگ‘ سے بنے مکان 500 سال بعد بھی خراب نہیں ہوتے جبکہ سیمنٹ سے بنے گھر 100 سال بعد خراب ہو جاتے ہیں۔ یہی ان لکڑی کے بنے گھروں کی خوبصورتی ہوتی ہے۔

بشکریہ عرب نیوز

مورخ ، اسلام آباد کے محکمہ آثار قدیمہ اور عجائب گھر کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد عارف نے گلگت بلتستان کی قدیم ثقافت کے لیے ’شق کھنگ‘ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بنے مکانات کم لاگت والے ہوتے ہیں اور تعمیر کرنے میں آسان بھی ہیں، اس کے لیے کم سے کم دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ پہاڑی ماحول اور انتہائی موسمی حالات کے لیے موزوں ہیں۔

ڈاکٹر محمد عارف کے مطابق شق  کی دیواریں بنانے کے لیے چنار اور بید کی ٹہنیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بُن کر ایک مضبوط اور باہم مربوط ڈھانچہ بنایا جاتا ہے، اس کی طاقت بڑھانے کے لیے مختلف مادوں کو ملا کر مٹی کا پلاسٹر لگایا جاتا ہے۔ مٹی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے بھوسہ شامل کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ اسے سیمنٹ کی طرح مضبوط کرنے کے لیے خوبانی کا رس بھی شامل کیا جاتا ہے۔

’یہ گھر لچکدار ہونے کی وجہ سے زلزلے کے خلاف بھرپور مزاحمت دکھاتے ہیں اسی لیے جب بھی زلزلہ آتا ہے یہ گرتے نہیں ہیں۔‘

ڈاکٹر محمد عارف کے مطابق شق کھنگ  ہماری ثقافت کا اہم حصہ ہیں، ان گھروں کو زندہ رکھنا وقت کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ  ان قدیم عمارتوں کے ذریعے سیاحوں کو بھی اس خطے کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم نے ان کو زندہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا نہ کیا تو ہماری تاریخ بھی مٹ جائے گی۔

بلتستان کلچرل ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے سی ای او وزیر اعجاز کا کہنا ہے کہ ہماری بھرپور کوشش ہے کہ ہم ان گھروں کو محفوظ کریں۔ ہم نے اسکردو اور گھانچے کے اضلاع میں بہت سے مقامی لوگوں کو شق کھنگ بنانے کی تربیت دی ہے اور بلتستان یونیورسٹی کی مدد سے مزید مقامی لوگوں کو ان کی تعمیر کے لیے تربیت دیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp