ترکیہ میں ’رجیم چینج‘ سے متعلق جو بائیڈن کی خواہش پوری کیوں نہیں ہوسکی؟

پیر 29 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ترکیہ میں ایک مشکل اور اہم ترین انتخابات اپنے انجام کو پہنچے اور طیب اردوان نے لگاتار تیسری مرتبہ صدارتی انتخاب جیت کر ان تمام مغربی رہنماؤں اور میڈیا ہاؤسز کو مایوس کیا جو واضح طور پر ان کی شکست کا یا تو اعلان کرچکے تھے یا بڑھ چڑھ کر اس خواہش کا اظہار کررہے تھے۔

ویسے تو اس تحریر کا بنیادی مقصد طیب اردوان کی جیت اور آنے والے دنوں میں متوقع تبدیلیوں پر بات کرنا ہے مگر اپوزیشن رہنما کمال قلیچ دار اوغلو کی بات کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ جتنا اچھا مقابلہ انہوں نے کیا اور اس مقابلے کو جتنا مشکل بنایا یہ واقعی کمال بات ہے۔

لیکن کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کی اس ساری کوششوں کے پیچھے مغربی دنیا تھی، اور ایسا کہنے کے لیے 2 بڑی وجوہات پیش کی جاتی ہیں۔

پہلی وجہ جنوری 2020 میں جو بائیڈن کی جانب سے انتخابی ریلی میں کی جانے والی وہ تقریر ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس بات کی حوصلہ افزائی کریں گے اگر طیب اردوان کے مخالف امیدوار انہیں شکست سے دوچار کریں۔

جبکہ دوسری وجہ خود کمال قلیچ دار اوغلو کی انتخابی مہم ہے جس کی بنیاد ہی مغربی ممالک سے تعلقات کی بحالی اور نیٹو میں ترکیہ کے کردار میں اضافے کی خواہش کا اظہار تھا۔

لیکن یہاں 2 سوال اٹھتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جب ترکیہ نیٹو اتحاد کا حصہ ہے اور امریکا کا اتحادی بھی ہے تو پھر جو بائیڈن کو طیب اردوان سے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے؟

اس کا جواب وہ فیصلے ہیں جو طیب اردوان کی جانب سے لیے گئے ہیں جن میں اہم ترین روس کے ساتھ تعلقات میں مسلسل اضافہ ہے۔ جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکا سمیت مغربی دنیا سیخ پا ہوگئی اور پابندیوں تک کی نوبت آگئی مگر ترکیہ نے روس کے ساتھ نہ صرف تیل کی خریداری جاری رکھی بلکہ اس کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ بھی کرلیا۔

اگر دوسرے سوال کی بات کریں کہ جو بائیڈن کی خواہش کے برخلاف طیب اردوان کیسے کامیاب ہوگئے؟ تو اس کا جواب وہ جمہوری روایات ہیں جن پر ترک عوام کا مکمل بھروسہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں مراحل میں 85 فیصد سے زائد لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور یہ ثابت کیا کہ ملک سے متعلق جو فیصلے ہوں گے وہ ملک کے اندر ہوں گے اور وہاں کے عوام کریں گے۔

اب جبکہ طیب اردوان منتخب ہوچکے ہیں تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ کونسے کام ہیں جو جاری رہیں گے یا جن کی رفتار میں اضافہ ہوجائے گا۔

طیب اردوان منتخب ہونے کے بعد کونسے بڑے کام کریں گے؟

ایسے کئی کام ہیں جن پر طیب اردوان کی توجہ ہوگی جن میں سرفہرست معاشی صورتحال کی بہتری، زلزلہ زدگان کی بحالی اور آبادی اور دفاعی شعبہ ہے۔

اس وقت ترکیہ کی معاشی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے مگر اردوان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان بُرے حالات میں بھی لوگوں نے ان پر بھروسہ کیا ہے اس لیے اب صدر پر بوجھ مزید بڑھ گیا ہے کہ وہ جلد از جلد ان حالات میں بہتری لائیں۔

اس کے علاوہ حال ہی میں آنے والے زلزلے نے بھی ترکیہ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے جس میں تقریباً 50 ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اس زلزلے سے متاثر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اس لیے ایسے تمام افراد کی بحالی اور آبادکاری بھی بہت اہم مسئلہ ہے جس کو ٹھیک کرنے میں کم از کم ڈیڑھ سے 2 سال لگ سکتے ہیں۔

جبکہ دفاعی شعبے پر پہلے سے ہی کام جاری تھا اور خیال یہ کیا جارہا ہے کہ اس میں مزید تیزی دکھائی جائے گی۔ صورتحال یہ ہے کہ ترکیہ نے اپنا فائٹر جیٹ بھی بنالیا ہے اور آنے والے عرصے میں وہاں مزید کام ہونے ہیں۔

ترکیہ میں موجود مہاجرین کی بڑی تعداد طیب اردوان کی فتح کیوں چاہتی تھی؟

ترکیہ میں موجود مہاجرین خصوصاً عرب اور شامیوں کی اکثریت طیب اردوان کی حمایتی تھی اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اردوان اور ان کی پارٹی ایسے تمام افراد کی حمایت کرتی تھی۔ جبکہ اپوزیشن رہنما کی جانب سے چلائی جانے والی مہم کا ایک بڑا حصہ انہی مہاجرین کے خلاف تھا بلکہ ایسا تاثر دیا جارہا تھا جیسے ترکیہ میں ہونے والے تمام مسائل کے ذمہ دار یہی مہاجرین ہیں۔

ترکیہ میں موجود پاکستانی کی رائے

ترکیہ میں رہائش پذیر پاکستانی فہیم مجاہد سے جب ہم نے پوچھا کہ بطور پاکستانی وہ اس کامیابی کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ’بات شروع کرنے سے پہلے ہمیں 20 سال پہلے جانا ہوگا جب ترکیہ ترقی سے بہت دُور تھا مگر طیب اردوان نے اپنے اقتدار میں ترکیہ کو آج اس نہج پر پہنچا دیا ہے جب وہ اپنی پیداوار میں بہت حد تک خودمختار ہوچکا ہے، جیسے دفاعی مصنوعات سے لے کر گاڑیوں کی پیداوار اب ترکیہ خود کررہا ہے جبکہ اگر میڈیا میں آنے والی تبدیلی کا ذکر کریں تو وہ بھی بہت تیزی سے ہورہی ہیں‘۔

فہیم کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر برآمدات کی بات کی جائے تو وہاں بھی ترکیہ بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے اور یورپ اور افریقہ اس حوالے سے ترکیہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہاں سب اچھا ہے بلکہ اگر گزشتہ ڈیڑھ سال کے حالات دیکھیں تو ترکیہ کی معاشی صورتحال میں گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے اور لیرا بھی مسلسل کمزور ہوتا جارہا ہے، اسی لیے عوام میں بے چینی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے، شاید اسی لیے مقابلہ اس بار کچھ زیادہ ہی سخت دیکھنے کو ملا‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp