فوجی عدالتوں میں ٹرائل مجبوری کا فیصلہ

منگل 30 مئی 2023
author image

ناصر الدین محمود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آئین موجود ہو لیکن بنیادی انسانی حقوق معطل ہوں، ریاست میں آئین اور قانون کی عملداری قائم ہو لیکن سویلین ملزمان کو تعزیرات پاکستان کے تحت فوج داری مقدمات میں عدالتوں کے روبرو پیش کرنے کے بجائے آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس قائم کرکے وہاں پیش کیا جائے اور انہیں انصاف کے حصول کے رائج نظام کے فوائد سے محروم کر کے اسپیڈی ٹرائل کے ذریعے کیفرِ کردار تک پہنچادیا جائے۔ ایسے اقدامات کی کبھی بھی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کے نتیجے میں بنیادی انسانی حقوق پر ضرب لگتی ہے اور ملزم انصاف کے کئی مراحل اور فوائد کے کئی درجات سے محروم رہ جاتا ہے۔

آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس کا قیام بالخصوص جب ملک میں جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی حکومت قائم ہو اور عوام کی اکثریتی رائے کی بنیاد پر جمہوری طور طریقوں سے حکومت اپنے فرائض منصبی بھی انجام دے رہی ہو۔ یعنی ریاست میں آئین کی مکمل عملداری قائم ہو اور شہریوں کو اس آئین میں دیئے گئے تمام حقوق بھی حاصل ہوں اور دوسری طرف سویلینز کا آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری ٹرائل کیا جانا ہرگز قابلِ فخر نہیں ہوسکتا۔ بلکہ معمول کے حالات میں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہی تصور ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں تنقید کرنے سے قبل اس امر کا جائزہ بھی ضرور لینا چاہیے کہ آخر نوبت یہاں تک کیونکر پہنچی؟ حالات اس نہج تک کیسے پہنچے کہ ملک کی تمام جمہوری سیاسی قوتوں کے سامنے واحد راستہ یہی بچا۔

اس سلسلے میں جب ہم حال ہی کے چند برسوں کے سیاسی وعدالتی تاریخ کا کھلے دل ودماغ سے جائزہ لیں گے تو یہ جان سکیں گے کہ جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی قیادت یہاں تک کیسے پہنچی؟ اور کس طرح کے حالات نے انہیں بالکل زچ کردیا؟ ہوا یوں کہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ایک مخصوص سیاسی جماعت کی مسلسل ایسی بے جا حمایت کی جاتی رہی کہ جس کی سہولت کاری کے ناقابلِ تردید شواہد سب کے سامنے موجود ہیں۔ بنیادی طور پر یہی وہ وجہ بنی جس کے سبب سویلین ملزمان کو آئین و قانون کے مطابق سزائیں دلوانا تقریباً ناممکن ہو گیا تھا تب ہی جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں کی قیادت نے حالیہ کور کمانڈر کانفرنس میں سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں پیش کرنے کی تجویز کی مذمت کرنے کے بجائے اس کی تائید کردی۔

خیر یوں تو ہمارے ملک میں اوائل ہی سے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کی پرانی روایت موجود ہے اور چند ماہ قبل ریٹائر ہونے والے سابقہ چیف آف آرمی اسٹاف کے چھ سالہ دور ملازمت میں بھی درجنوں سویلینز کو ملٹری کورٹس کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن یہ کوئی ایسی قابلِ رشک روایت ہرگز نہیں ہے کہ اس پر عمل بھی ضرور کیا جائے۔

موجودہ حالات میں اگر ہم اس صورتحال کا جائزہ لیں کہ جمہوری دور حکومت میں ملٹری کورٹس کے تحت سویلینز کے ٹرائل کی تجویز کی مخالفت کیوں نہیں کی جا رہی تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس صورت حال کے ذمہ دارعدلیہ کے وہ نمائندے ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے ملک میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کی بے جا حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔

اس کی ایک بہت ہی واضح مثال یہ پیش کی جاسکتی ہے کہ ابھی 9 مئی کا واقعہ ہماری یادداشت میں بالکل تازہ ہے کہ جب تحریک انصاف کے سربراہ، سابق وزیراعظم عمران خان کو ہائی کورٹ کے احاطہ سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں نے گرفتار کیااور ان کی گرفتاری کو بعد ازاں متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے قانون کے مطابق قرار دیکر اس اقدام پر جائز ہونے کی مہر ثبت کردی۔ لیکن افسوس کہ ان کی گرفتاری کے ردعمل میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں نے جس طرح آرمی کی تنصیبات، جی ایچ کیو پر حملے، لاہور کے کور کمانڈر کی رہائش گاہ پر حملے، قوم کے شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی اور انہیں نظر آتش کرنے جیسے شرمناک، قابلِ مذمت اقدامات کیے تو اعلیٰ عدلیہ نے اس ضمن میں ناصرف کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیا بلکہ اس واقعہ کے اگلے روز جب عمران خان کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو پیش کیا گیا تو اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ان سے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

مزید یہ کہ ان کو سپریم کورٹ کے مہمان کی حیثیت سے تمام سہولیات کے ساتھ اس کے اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے احکامات کی بجاآوری کرتے ہوئے عمران خان کو اسی رات پولیس ریسٹ ہاؤس منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے اپنے احباب کے ساتھ خوش گپیاں بھی کیں اور کھانا بھی نوش فرمایا۔ عمران خان کو اس کے اگلے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہاں انصاف کی فراہمی کا عجیب وغریب منظر دیکھنے کو ملا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کمال فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف اب تک درج تمام مقدمات میں ضمانت منظور کرلی بلکہ اس سے بڑھ کر مستقبل میں بھی کسی ممکنہ جرم میں درج کئے جانے والے مقدمہ میں بھی ضمانت منظور کر کے ایک انوکھے باب کا اضافہ کیا۔ عمران خان کے لیے انصاف کی فراہمی کے نام پر جس طرح انصاف، قانون اور آئین کی بے توقیری کی جارہی ہے اس کی پاکستان کی عدالتی تاریخ میں دوسری کوئی مثال پیش ہی نہیں کی جا سکتی۔ عدالتی روایت شکنی کے ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت عدلیہ کسی انجانے یا نا انجانے خوف کا شکار ہو کر یا عمران خان کے عشق میں اس حد تک مبتلا ہو کر آئین، قانون، عدالتی تاریخ اور روایات کو بالائے طاق رکھ دے اور انصاف کے نام پر بے جا حمایت فراہم کرنے لگیں تو پھر مجبوراً اس طرح کے اقدامات کو جواز حاصل ہو ہی جاتا ہے۔

قوم نے دیکھا کہ گزشتہ سوا سال سے جس طرح ہماری اعلیٰ عدلیہ نے عمران خان کو تیز رفتار انصاف فراہم کیا وہ اپنی مثال آپ ہے یعنی انہیں ہر طرح کے مقدمات میں گرفتاری سے محفوظ رکھا گیا، ان کی تمام مقدمات میں ضمانت منظور کی گئی، مقدمہ کی سماعت کے سلسلے میں اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس آمد پر ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کو نظر انداز کیا گیا۔ مزید عدالت میں حاضر ہونے کے بجائے حاضری رجسٹر عمران خان کی گاڑی میں بھیج دیا گیا۔ کہیں ان پر قائم مقدمات کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دیا گیا، آئین کی وہ تشریح کی گئی جس سے عمران خان کو سہولت ہو اور 9 مئی کو دہشت گردی پھیلانے کے بعد بھی ان کی عدالت آمد کے موقع پر خیر مقدمی کلمات کا اظہار کیا گیا، ان کے لیے ججز کے مخصوص دروازے کھول دیا گئے، انہیں سفری سہولت کے لیے آرام دہ مرسڈیز کار پیش کی گئی، نیب عدالت سے ریمانڈ میں ہونے کے باوجود انہیں ریسٹ ہاؤس میں احباب کے ساتھ خوش گپیوں کی سہولت پہنچانے کے عدالتی احکامات جاری کئے گئے۔ یہیں پر بس نہیں ہوا بلکہ لاہور ہائیکورٹ نے قومی اسمبلی سے مستعفی اراکین کا جاری کیا گیا سپیکر اور الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دیا۔

جب ملک میں اس طرح کے حالات ہوجائیں تو پھر بقیہ سیاسی جماعتوں کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟ اگر ایک سیاسی جماعت ریاست کے ایک اہم ستون یعنی اعلیٰ عدلیہ کی چھتری تلے پناہ تلاش کرلے۔ ایسی پناہ کہ جس کے حصول کے بعد پھر وہ کسی بھی نوعیت کے جرائم کرے اور اسے نااہلی یا گرفتاری کا قطعی کوئی خوف ہی نہ ہو تو پھر مجبوراً دوسری فکر کی سیاسی جماعتوں کو یہ حق تو دینا ہی ہوگا کہ وہ اس طرح کے غیر معمولی حالات میں آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس کے قیام کو خوش دلی نہیں بلکہ بد دلی کے ساتھ تسلیم کرلیں تو ہمیں جمہوریت پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے طرزِ عمل پر کف افسوس نہیں ملنا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

1971 کی پاک بھارت جنگ: بہاریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم تاریخ کا سیاہ باب

آزادی رائے کو بھونکنے دو

بنگلہ دیش کا کولمبو سیکیورٹی کانکلیو میں علاقائی سلامتی کے عزم کا اعادہ

فلپائن میں سابق میئر ’ایلس گو‘ کو انسانی اسمگلنگ پر عمرقید

آج ورلڈ ہیلو ڈے، لوگ یہ دن کیوں منانا شروع ہوگئے؟

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟