چیف جسٹس سمیت 3 جج آڈیو لیکس کیس کا حصہ نہ بنیں: وفاقی حکومت

منگل 30 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراضات اٹھا دیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر کے خلاف دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ تینوں معزز جج 5 رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کر لیں۔

وفاقی حکومت نے متفرق درخواست آڈیو لیک کمیشن کے خلاف درخواستوں کے مقدمہ میں جمع کرائی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے آڈیو لیک کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر آڈیو لیک کمیشن کا مقدمہ نہ سنیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ 26 مئی کو سماعت کے دوران چیف جسٹس پر اٹھائے گئے اعتراض کو پذیرائی نہیں دی گئی۔ انکوائری کمیشن کے سامنے ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلق ہے۔ مبینہ آڈیو لیک جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منیب اختر سے بھی متعلقہ ہیں۔ عدالتی فیصلوں اور ججز کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ داروں کا مقدمہ نہیں سن سکتا۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیکس کمیشن کو کام سے روک دیا

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 26 مئی کو آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے آڈیو لیک کمیشن کو کام سے روک دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیکس کمیشن کی کارروائی پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ کسی بھی حاضر سروس جج کی بطور کمیشن تعیناتی کے لیے چیف جسٹس کی اجازت ضروری ہے۔

 چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے حکمنامے میں لکھا تھا کہ آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل مشکوک انداز میں کی گئی۔ 8 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا تھا۔

چیف جسٹس نے حکمنامے میں لکھا تھا کہ بطور سپریم کورٹ جج کسی بھی دوسرے منصب پر کام کرنے کے لیے چیف جسٹس کی اجازت ضروری ہے۔ 5 رکنی بینچ کے مطابق وفاقی حکومت نے یکطرفہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دوسرے ممبران کو بطور کمیشن مقرر کیا، اس طرح سے آئینی اصول کی خلاف ورزی کی گئی۔

بنیچ کے مطابق کمیشن کے دوسرے ممبران کی تعیناتی کے لیے بھی ہائیکورٹ کی ججز کی منظوری ضرروی تھی۔ آڈیو لیک کمیشن کی کارروائی کے خلاف درخواست پر سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان کو آئین کے آرٹیکل 209 جو ججز کے احتساب سے متعلق ایک آرٹیکل ہے اس کی تشریح پر بحث کے لیے نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp