چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے نیب کیسز میں ریکوریز کے معاملہ پر چیئرمین نیب کی طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ چیئرمین نیب کی جگہ ڈپٹی چیئرمین نیب پیش ہوئے اور بتایا کہ چیئرمین نیب کراچی ہیں، انہوں نے آنا تھا تاہم ان کی فلائٹ کینسل ہو گئی، جس پر نور عالم خان نے کہا کہ ہم کسی ڈپٹی کی کوئی بات نہیں سنتے، میرے بھی بہت اختیارات ہیں، میں معلوم کراتا ہوں کہ کیا چیئرمین نیب اسلام آباد میں ہیں یا نہیں؟
نور عالم خان نے کہا کہ مجھے فون آتے ہیں کہ چیئرمین نیب کو کیوں بلا رہے ہیں؟ میں کسی کے دباؤ میں نہیں آتا، میں کسی سے ڈرتا نہیں، میں کرپٹ نہیں ہوں۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جس نے جو کرنا ہے میرے خلاف کر لے۔ اگر مجھے فون کالز آئیں گی تو پھر میں جذباتی ہوں گا۔ اگر میں نے ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کو نہیں سنا تو ڈپٹی چیئرمین نیب کو بھی نہیں سنوں گا۔ جو بھی ہو چیئرمین نیب کو آنا ہو گا۔ میں کہتا ہوں کہ نیب کرپٹ لوگوں کو پکڑے لیکن نیب سے سوال نہ کرنے کے لیے ہمیں فون کرائے جاتے ہیں۔ پی اے سی نے آئندہ ہفتے چیئرمین نیب کو ریکارڈ سمیت دوبارہ طلب کر لیا۔
پی اے سی کی 999 ارب کی ریکوری، نیب کی ریکوری صفر: چیئرمین پی اے سی
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے نیب کیسز میں ریکوریز کے معاملہ پر چیئرمین نیب کی طلبی کے باوجود پیش نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین 20 لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں، میں 1 لاکھ 88 ہزار روپے لیتا ہوں۔ ہماری کمیٹی نے 999 ارب کی ریکوری کی ہے، لیکن نیب کی ریکوری بالکل صفر ہے۔
ممبر کمیٹی روحیل اصغر نے کہا کہ نیب کیسز میں قانونی جنگ کے لیے حکومت کے کئی اربوں روپے لگا دیئے گئے، لیکن یہ کیسز لوگوں کو ڈرانے کے لیے بنائے گئے،انہوں نے کہا کہ چیئرمین سے یہ بھی استفسار کیا جائے کہ کتنے پیسے قانونی جنگ کے لیے لگائے گئے؟
چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ اگر کوئی نور عالم خان کو پسند نہیں کرتا تو وہ مجھے ہٹا دے، لیکن میں عوام کا نمائندہ ہوں، اور حکومت کے ایک ایک پیسے کی ریکوری کے لیے کوشاں رہوں گا۔
کمیٹی اجلاس میں پمز اور پولی کلینک ہسپتال کے گریڈ 19 اور 20 کے ڈاکٹرز کو 17 گریڈ کے آلاؤنسز ملنے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔
چیئرمین کمیٹی نورعالم خان نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت پمز اور پولی کلینک کے گریڈ 19 اور 20 کے ڈاکٹرز کو آلاونسز گریڈ 17 کے دیے جا رہے ہیں؟ اس پر سیکرٹری صحت نے کہا کہ 1991 اور 2008 میں ایک پالیسی بنی تھی جس کے تحت پلیس منٹ کی بنیاد پر پروموشن ہوتی تھی۔ 30 سال سے یہ سلسلہ چلا آ رہا تھا، پلیس منٹ کی بنیاد پر گریڈ کی ترقی ملتی تھی مگر الاؤنسز کم گریڈ کے ملتے تھے۔
سیکرٹری صحت نے درخواست کی کہ ہمیں تھوڑا وقت دیں، ہم نئے رولز بنا لیتے ہیں جس پر چیئرمین پی اے سی نے سیکرٹری صحت و خزانہ کو ایک ماہ میں معاملہ حل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پلیس منٹ کی گیم ختم کریں اور ریگولر پروموشن کریں۔