انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی) پنجاب عثمان انور نے کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے یہ الزامات من گھڑت ہیں کہ تحریک انصاف کی گرفتار خواتین کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے لیگل پراسیس کو سمجھے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی شخص کی گرفتاری قانون کے مطابق ہوتی ہے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، آئی جی جیل خانہ جات ، ایس ایس پی انویسٹی گیشن لاہور اور ڈپٹی کمشنر لاہور کی مشترکہ پریس کانفرنس#IGP #IG #prisons #SSP #Investigation #DCLahore #press #conference #CPO #women #jail #propagandahttps://t.co/29YiNjMjQe
— Punjab Police Official (@OfficialDPRPP) May 30, 2023
عثمان انور نے کہا کہ ہم اسی ملک کی شہری ہیں، لیڈیز پولیس کے علاوہ کسی بھی خاتون کو مرد اہلکاروں نے گرفتار نہیں کیا۔ ان کی ایک خاتون جب گرفتار ہوئی تو اس وقت ہماری لیڈیز پولیس اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ سانحہ 9 مئی کے بعد ان لوگوں کو ٹریس کر کے گرفتار کیا گیا ہے جو ملکی تنصیبات پر حملوں اور توڑ پھوڑ میں ملوث ہیں اور اس کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں اور نادرا کی مدد لی گئی۔
یہ بھی پڑھیں جیلوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی پر شک وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے دور ہو جانا چاہیے، عمران خان
عثمان انور نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ گرفتار خواتین کے جسم پر کٹ لگائے گئے ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے۔
انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے ٹوئٹ کب تک ڈیلیٹ کرتے رہیں گے۔ جیل میں کیمرے لگے ہوئے ہیں خواتین کے ساتھ بد سلوکی ممکن ہی نہیں۔
عثمان انور کا کہنا تھا کہ ہم نے تو ان لوگوں کو گرفتار کیا جنہوں نے آرمی تنصیبات پر حملوں کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر وہ تصاویر شیئر کیں۔
خواتین سے جیل میں جا کر خود ملی ہوں، ایس ایس پی ڈاکٹر انوش
اس موقع پر خاتون ایس ایس پی ڈاکٹر انوش نے کہا کہ میں خواتین سے جیل کے اندر جا کر ملی ہوں۔ جو افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ خواتین کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے ان میں کوئی صداقت نہیں۔
خاتون ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ جیل میں طبی عملہ موجود ہے اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہو تو طبی امداد دی جاتی ہے۔
ڈاکٹر انوش نے کہا کہ جو ماحول گھر میں ہوتا ہے وہ تو گرفتار خواتین کو نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ خدیجہ شاہ بتا رہی تھیں کہ مجھے دمے کا مسئلہ ہے تو ان کو ادویات دے دی گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں جیلوں میں قید پی ٹی آئی کی خواتین ورکرز کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ 150 خواتین کے ساتھ جیل میں جا کر ملی ہوں اور ان کو قانون کے مطابق تمام سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ اتوار 28 مئی کی رات وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف اداروں کو بدنام کرنے کے لیے کسی پی ٹی آئی رہنما کے گھر پر فائرنگ اور ریپ جیسی جعلی کارروائی کرنا چاہتی تھی جو پکڑی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک گفتگو پکڑی جس میں یہ پلاننگ کی جا رہی تھی کہ پی ٹی آئی کے کسی رہنما کے گھر پر جعلی ریڈ کرائی جائے گی جہاں فائرنگ بھی ہو گی اور دوسری پلاننگ میں ریپ کا ذکر ہے۔
مزید پڑھیں پی ٹی آئی ’فائرنگ اور ریپ ڈراما‘ رچانا چاہتی تھی جو بے نقاب ہوگیا، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ
رانا ثنا اللہ کی پریس کانفرنس کے جواب میں عمران خان نے رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کے بعد یہ شک دور ہو جانا چاہیے کہ پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
عمران خان نے سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس از خود نوٹس لے کر ہماری گرفتار خواتین کی رہائی کا حکم دیں کیوں کہ ہماری خواتین کے ساتھ جو ظلم کیا جا رہا ہے تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
مزید پڑھیں جیلوں میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی پر شک وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس سے دور ہو جانا چاہیے، عمران خان