نیشنل گیمز میں بلوچستان کے کھلاڑیوں کی کارکردگی بدترین کیوں رہی؟

منگل 30 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے صوبے بلوچستان کی سر زمین پر 19 سال کے بعد قومی کھیلوں کے مقابلوں کا میلہ سجایا گیا۔ قومی کھیلوں کے مقابلوں میں مجموعی طور پر 6 ہزار سے زائد مرد و خواتین کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ 18 روز تک جاری رہنے والے 34 ویں نیشنل گیمز کے مقابلوں میں 36 کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا جس میں سے 32 کوئٹہ کے مختلف مقامات پر منعقد ہوئے۔

نیشنل گیمز میں چاروں صوبوں سے محکموں اور مختلف ایسوسی ایشنز کی 14 ٹیمیں شریک ہوئیں۔

نیشنل گیمز کے میڈل ٹیبل پر پاک آرمی سر فہرست

نیشنل گیمز کے میڈل ٹیبل پر پاک آرمی سر فہرست رہی، واپڈا دوسرے، نیوی تیسرے جبکہ میزبان ٹیم بلوچستان نے دسویں پوزیشن حاصل کی۔

نیشنل گیمز میں پاکستان آرمی نے مجموعی طور پر 398 تمغے حاصل کیے جس میں 199 سونے، 133 چاندی اور 66 کانسی کے تمغے شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر آنے والی واپڈا نے مجموعی طور پر 290 میڈلز حاصل کیے جن میں 109 سونے، 101 چاندی اور 80 کانسی کے تمغے شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں کیسکو نے نیشنل گیمز کے دوران ایوب اسٹیڈیم کوئٹہ کی بجلی کاٹ دی

قومی کھیلوں کے مقابلوں میں مختلف صوبوں کے کھلاڑیوں کی بات کی جائے تو سندھ کے کھلاڑی 4 سونے، 16 چاندی اور 23 کانسی کے تمغے حاصل کرکے چھٹے نمبر پر رہے۔ خیبر پختونخوا 4 سونے، 6 چاندی اور 39 کانسی کے تمغے حاصل کرکے ساتویں جبکہ 3 سونے 11 چاندی اور 53 کانسی کے تمغے حاصل کر کے پنجاب کے کھلاڑی آٹھویں نمبر پر رہے۔

تاہم قومی کھیلوں کا میزبان صوبہ بلوچستان جس کا دستہ ایک ہزار سے زائد کھلاڑیوں پر مشتمل تھا اس کی کارکردگی سب نیشنل گیمز میں بدترین رہی۔ صوبے کے کھلاڑی صرف 2 سونے، 18 چاندی اور 30 کانسی کے تمغے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

نیشنل گیمز میں بلوچستان کی کارکردگی بدترین کیوں؟

ماضی میں بلوچستان کے کھلاڑی دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ حکومت کی کھیل کے شعبے میں عدم دلچسپی کی وجہ سے محکمہ کھیل تباہی کے دہانے پر آن کھڑا ہے جسکی جیتی جاگتی مثال نیشنل گیمز میں کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

نیشنل گیمز میں شریک بلوچستان کے ایتھلیٹ محمد طیب نے بتایا کہ صوبے کے کھلاڑی جی جان سے مقابلوں کے لیے محنت کرتے ہیں لیکن سہولیات کا فقدان، منیجمنٹ کی نااہلی اور کوچنگ اسٹاف کا نہ ہونا کھلاڑیوں کی مہارت میں کمی کا باعث بنتی ہے، محکموں اور صوبوں کے کھلاڑی مقابلوں کے کئی ماہ قبل تیاریوں کا آغاز کر دیتے ہیں جبکہ بلوچستان میں ایسا نہیں ہوتا جس سے کھلاڑیوں کی شدید حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

ایک اور کھلاڑی حمزہ عابد نے بتایا کہ بلوچستان کے کھلاڑی کسی سے پیچھے نہیں، فرق صرف بڑے مقابلوں کے انعقاد کی کمی کا ہے، طویل انتظار کے بعد بلوچستان میں میگا ایونٹ کرایا گیا، اگر اس طرح کے قومی سطح کے مقابلے متواتر انعقاد پذیر ہوں تو بلوچستان کے میڈلز کی تعداد کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں کوئٹہ میں نیشنل گیمز کا پر امن انعقاد

قومی کھیلوں کے مقابلوں میں صوبے کے کھلاڑیوں کی بدترین کارکردگی پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر کھیل خالق ہزارہ نے کہا کہ کھلاڑیوں نے مقابلوں میں اپنی بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن یہ ناکافی رہا۔ صوبے کے کھلاڑی مالی مشکلات سے دو چار ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے کھیل پر توجہ نہیں دے سکتے تاہم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے میں نے صوبائی کابینہ میں یہ بات اٹھائی کہ صوبائی محکموں میں کھلاڑیوں کے 5 فیصد کوٹے پر عملدرآمد ہونا چاہیے جس سے ان کی معاشی مشکلات حل ہوں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ میڈلز ٹیبل کی ٹاپ ٹیموں میں کئی کھلاڑیوں کا تعلق بلوچستان سے ہے جو ملکی سطح پر صوبے کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ہمیں مزید ایسے کھلاڑیوں کے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp