کل تک ستائش باہمی کے لیے جو بت تراشے تھے آج زباں ملنے پر وہی بت ادارے پر ہی برس پڑے، اس لیے کہ ادارے نے نئے بت تراش لیے۔ پرانے بتوں کی زبان دراز ہوئی تو انکی زبان بندی کے لیے بت شکنی کا عمل شروع ہو گیا۔اس خوف کی فضا میں توبہ کا دروازہ تو ہر وقت کھلا ہی ہوتا ہے چنانچہ عقائد کی تبدیلی کا عمل وسیع پیمانے پر جاری ہے۔
کوئی دل سے مانے یا نہ مانے لیکن زباں سے ہر کوئی لا الہ کا ورد کر رہا ہے۔براہ راست میڈیا پر راہ راست دکھائی جا رہی ہے اور قبلہ کی درست نشاندہی کی جا رہی ہے۔عقائد کی تجدید کا یہ عمل وقت کی ضرورت ہی نہیں بلکہ ایک حد تک مجبوری بھی ہے کیونکہ کوئی تیسرا آپشن موجود نہیں بقول حبیب جالب: ’لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو‘
ہماری شہری قیادت الزام عائد کرتی ہے کہ ’وہ‘ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ’انہیں‘ سویلین بالادستی کے علمبردار ہی سیاست میں کھینچتے ہیں، ان سے خفیہ ملاقاتیں ہوتی ہیں، ان سے رابطوں اور حوالوں پر فخر کیا جاتا ہے، اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے ان تمام مخفی وابستگیوں کو سب سے موثر اور محفوظ راستہ قرار دیا جاتا ہے۔
ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ماضی میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد کیس سپریم کورٹ تک جا پہنچا اور پھر عوام کو بھی پتہ چل گیا کہ و فاقی دارالخلافہ میں آبپارہ کے مقام پر ایک دفترہے جہاں ایک پولیٹیکل سیل بھی تھا جس نے نوے کی دہائی میں ہونے والے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کیے تھے۔ان سیاستدانوں کے نام آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس کیس میں منظر عام پر آنے والے انکشافات اتنے ہوشربا تھے کہ عوام حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ کسی غیر سیاسی ادارے سے الیکشن میں پیسہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔
لیکن یہ معرفت کی باتیں تھیں بھلا عوام کوکیونکر سمجھ آتیں۔ یہاں قصور پیسہ دینے والوں کا نہیں بلکہ لینے والوں کا تھا کہ کیوں انہوں نے جمہوری، سیاسی، اخلاقی اور روایتی اقدار کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔یہ تو ایک وہ کیس تھا جو کہ سپریم کورٹ میں آنے کے باعث منظر عام پر آ گیا ورنہ ایسے کتنے ہی سیا ستدان ہوں گے جو اس بہتی گنگا کے کنارے پر پہنچے ہونگے اور نہ صرف ہاتھ دھوئے ہونگے بلکہ غسل بھی کیا ہو گا۔سویلین بالادستی کے نعروں کے پس پردہ یہ وہ حقائق ہیں جو حقیقت میں موجود ہیں لیکن انسانی نظروں سے اوجھل ہیں۔
خودساختہ فرزند راولپنڈی شیخ رشید احمد نے ایک بار ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ کونسا ایسا سیاستدان ہے جو جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر چار کی پیداوار نہیں ہے۔ اس وقت ان کے اس بیان پر کافی برا منایا گیا تھا لیکن جب وقت نے ثابت کیا تو بات میں وزن محسوس ہوا، پاکستان میں سیاستدانوں کی سیاسی جنم کنڈلی کو بغور دیکھا جائے تو ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کی گود سے اترا دکھائی دیتا ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ کچھ اس کا برملا اظہار کر دیتے ہیں اور کچھ شرما شرمی میں ہاں نہیں کہتے لیکن عملا وہی ہوتے ہیں۔
یاد نہیں ایک ایکسٹینشن کے لیے قانون میں ترمیم کرنا تھی تو کس طرح سے تمام سویلین لیڈر شپ قطار بنا کرپارلیمنٹ میں ووٹ ڈالنے کے لیے بے تاب ہو گئے تھے۔ اپنے تمام سیاسی مفادات و اختلافات بالائے طاق رکھ کر ہر قسم کی پارٹی کی تفریق سے بالا ہو کر جس اتحاد کا مظاہرہ سویلین لیڈرشپ نے دکھایا تھا وہ تاریخ کے اوراق میں حروف اسود ہیں۔ تو پھر تصدیق تو اسی وقت ہو گئی تھی کہ گیٹ نمبر چار کے راہ گزر صرف وہی نہیں جن کا وہاں سے گزر ہوتا ہے بلکہ یہ وابستگی جذباتی اور روحانی بھی ہو سکتی ہے۔وہ روحانی جذ بہ اور وابستگی جو تمام سویلین سیاستدانوں کو ایک لڑی میں پرو تی ہے۔
ہر دور کی سیاست میں سرحدوں کے رکھوالوں کوصرفٖ سرحد تک ہی محدود رکھنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی لیڈرشپ یہ بھی چاہتی ہے کہ جواحساس تحفظ انہیں افواج کا سرحدوں یا بیرکوں پر موجودگی سے ہوتا ہے ویسا ہی تحفظ انہیں خارزار سیاست میں اقتدار کے لیے بھی ہو، بس اسی لیے غیر محفوظ سیاستدان کا احساس خوف ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ کوئی ’ان داتا‘ ڈھونڈھیں کوئی ’گاڈ فادر‘ہو کوئی ادراجاتی سرپرستی ہو جو انکے اقتدار کا تحفظ کرے۔
اگرچہ جمہوریت کی گاڑی کو کئی بار ڈی ریل کیا گیا، اس دوران اس گاڑی میں سوار نہ صرف مجروح ہوئے بلکہ ایک وزیر اعظم کو تو غاصبانہ دور میں شہید بھی ہونا پڑا جسے آج بھی عدالتی قتل کا نام دیا جاتا ہے۔وزراء اور امراء کا کیا کہنا یہاں تو وزیر اعظم کو ملزمان کے کٹہرے میں لایا جاتا رہا، کبھی کوئی خط نہ لکھنے پر نا اہل،کوئی بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے پر نا اہل، لیکن اس کٹہرے میں اگر کوئی نہ آیا تو وہ جن کے خلاف آرٹیکل چھ کی کاروائی ہوئی لیکن کبھی سزا وار ہونے کے باوجود بھی سزا کے عمل سے نہ گزرے۔
کبھی صرف مقدس گائے کو حلال کرنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن مارخور بھی فہرست استثنیٰ میں شامل ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ سویلین بالادستی پر یقین رکھنے والے بالا دست طبقے کے آگے ہی اپنا سر نگوں کرتے ہیں، آنکھیں فرش راہ کرتے ہیں، اپنے ایوانوں میں خوش آمدید کہتے ہیں، انہیں اپنا محافظ بھی سمجھتے ہیں اور مسیحا بھی،نعرے بلند کرتے ہیں سویلین بالادستی کے، بیعت کرتے ہیں حاضرین کی اور ساتھ دیتے ہیں غائبین کا۔ انہی سے زخم کھاتے ہیں انہی سے دوا لیتے ہیں۔ میر کے بقول
میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں