خیبرپختونخوا پولیس نے بالآخر پشاور پولیس لائنز میں100 سے زائد افسران و اہلکاروں کی جان لینے والے خودکش حملہ آور کی شناخت کرلی جس سے حادثہ کے ذمہ دار عناصر تک پہنچنا ممکن ہوگیا۔
ان باتوں کا انکشاف انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر سانحہ کے حوالہ سے گفتگو کے دوران وہ آبدیدہ بھی دکھائی دیے۔
آئی جی پولیس نے بتایا کہ ان کے ہاتھ ایک اہم فوٹیج لگی ہے اور اب پولیس شہادتوں کی وجہ بننے والے دہشتگرد نیٹ ورک کے نزدیک پہنچ چکی ہے۔
معظم جاہ انصاری آئی جی پختونخوا کا کہنا تھا کہ دہشت گرد نے ہیلمٹ اور چہرے پر ماسک پہنا ہوا تھا، حملہ آور کو مسجد کا راستہ نہیں پتہ نہیں تھا اس لیے اس نے راستہ ایک حوالد سے دریافت کیا۔
انہوں نے بتایا کہ حملہ آور چوں کہ پولیس کی نقلی وردی میں تھا تو اہلکاروں نے اسے اپنا پیٹی بھائی سمجھ کر مسجد راستہ بتایا اور وہ ڈرامہ کے طور پر اپنی موٹر سائیکل کو کھینچتا ہوا مسجد تک لایا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حملہ آور جس موٹر سائیکل پر آیا تھا وہ بھی تلاش کرلی گئی ہے۔
معظم جاہ نے انصاری کہا کہ پشاور سانحہ کی وجہ سے ان سمیت تمام افسران اور اہلکار دل گرفتہ ہیں لیکن وہ اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اپنے ایک ایک شہید کا بدلہ لے گی۔
پشاور حادثہ کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کسی نے رائے دی کہ بارودی مواد رکھا گیا تھا تو کسی نے اسے ڈرون حملہ بتایا، الغرض ہر کوئی سائنسدان بنا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جس مسجد میں دھماکا ہوا اس کے ہال میں کوئی ستون نہیں تھا اور چھت دیوار پر کھڑی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ دھماکہ کے باعث سب سے پہلے مسجد کی دیواریں گریں چھت بھی نیچے آ رہی جس کی وجہ سے شہادتیں زیادہ ہوئیں کیوں کہ تمام افراد چھت کے ملبہ تلے دب کر رہ گئے تھے۔
معظم جاہ انصاری کا کہنا تھا ان کے لیے زیادہ تکلیف کا باعث یہ ہے کہ ان کے لوگوں کو ان کے خلاف اکسایا جا رہا ہے۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ایک سکیورٹی لیپس تھا تاہم انہوں نے کہا کہ وہ کوتاہی کا ذمہ دار کسی اہلکار کو نہیں بلکہ خود کو سمجھتے ہیں۔