پاکستان کا تصور

ہفتہ 3 جون 2023
author image

قاضی فائز عیسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کلمہ حق کہنے کی پاداش میں میرے دادا قاضی جلال الدین اس سرزمین کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے جو آج پاکستان کہلاتی ہے۔ ہزارہ برادری، جو ایک نسلی اور مذہبی اقلیت ہے، پر جاری ظلم و ستم کے خلاف انھوں نے احتجاج کیا  جس نے افغانستان کے شاہ عبدالرحمٰن کو ناراض کر دیا۔

قندھار میں قاضی ہونا اور لائقِ احترام بزرگ شاہ مسعود بابا کی اولاد ہونا بھی جلال الدین کے کام نہ آیا۔ چنانچہ انھیں بادشاہ کے غضب سے بچنے کے لیے افغانستان میں اپنا گھر چھوڑنا پڑا؛ انھوں نے افغانستان سے متصل پشین کے علاقے میں پناہ لی جو اس وقت برطانوی ہند کا ایک گرد آلود کونہ تھا۔

پشین میں دو منزلہ گھر

یہاں قاضی جلال الدین نے اپنے لیے مٹی کا ایک دو منزلہ گھر بنوایا، جو 120 سال قبل بلوچستان میں انوکھا کام تھا۔ انھوں نے ترین قبیلے کی ایک مقامی خاتون سے شادی کی جن سے ان کے تین بیٹے ہوئے اور ان کے نام قرآن مجید میں مذکور انبیائے کرام کے نام پر بالترتیب محمد موسیٰ، محمد عیسٰی اور محمد اسماعیل رکھے گئے۔افغانستان سے ہجرت کرتے وقت وہ اپنے ساتھ صرف چند ذاتی نوعیت کی چیزیں لائے تھے لیکن ان کے علاوہ وہ 100 سے زائد چنار (Platanus orientalis) کے چھوٹے پودے بھی اونٹ کی پشت پر ساتھ لے آئے۔ یہ پودے پشین میں اور کوئٹہ کی لٹن روڈ (موجودہ زرغون روڈ) کے دونوں طرف لگائے گئے جو ساڑھے 5 ہزار فٹ کی بلندی پر کوئٹہ کی جھلسا دینے والی دھوپ میں سایہ فراہم کرتے ہیں۔

قاضی جلال الدین کے بچے اس وقت یتیم ہو گئے جب سب سے بڑے لڑکے کی عمر ابھی 10 سال بھی نہیں تھی۔ ان کی پُرعزم اَن پڑھ ماں نے ان کی پرورش کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ بہترین تعلیم حاصل کریں۔ سب سے بڑے بیٹے موسیٰ نے ایکسیٹر کالج، آکسفرڈ، میں تعلیم حاصل کی؛  سب سے کم عمر، اسماعیل لندن میں پائلٹ بنے اور اورینٹ ایئرویز کے لیے پرواز کرتے رہے جب مقامی سطح پر مستند ہوا باز بہت کم ہوا کرتے تھے۔ منجھلے بیٹے یعنی میرے والد محمد عیسیٰ نے لندن میں قانون کی تعلیم حاصل کی۔ 5,877 میل کی مسافت پر برطانوی سلطنت کے دارالحکومت تک پہنچنے کا مطلب تھا: بولان میل کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی کی بندرگاہ تک 20 گھنٹے ٹرین کا سفر، پھر اسٹیم بوٹ کے ذریعے ساؤتھمپٹن کی بندرگاہ اور پھر کہیں جاکے لندن۔

درمیان میں قاضی جلال الدین جبکہ ان کے بائیں خان اور قلات ہیں اور دائیں جانب چیف آف جھالاوان ہیں۔

میرے والد بلوچستان کے پہلے بیرسٹر تھے۔ قانون کی تعلیم کے دوران انھوں نے 1932ء میں گول میز کانفرنس کے شرکاء کے لیے منعقدہ عشائیہ میں شرکت کی اور ممتاز بیرسٹر سیاستدان محمد علی جناح اور فلسفی شاعر ڈاکٹر محمد اقبال سے ملاقات کی جس نے ان پر دیرپا اثر چھوڑا۔

یہ وہ سال تھے جب یورپ میں فاشزم پھل پھول رہا تھا جب کہ اٹلی اور جرمنی میں فاشسٹ برسراقتدار بھی آچکے تھے۔ ہٹلر جرمنی میں چانسلر کے طور پر منتخب ہوا اور اس کی نازی پارٹی نے عیسائی آریائی برتری اور غلبہ کا نعرہ لگایا؛ اکثریت کے غلبے پر مبنی جمہوریت کی ایک ایسی قسم رائج کی گئی جس کا مقصد اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کا قتل تھا۔جناح سمجھ گئے تھے کہ برصغیر کے مخصوص تناظر میں، جہاں مختلف نسلوں اور عقائد کے ماننے والے لوگ آباد ہیں، تنہا جمہوریت تباہ کن ثابت ہوگی اگر اس کے ساتھ تمام شہریوں کے لیے مناسب آئینی ضمانتیں موجود نہ ہوں۔ چنانچہ تمام گروہوں کے لوگوں کی ظلم سے حفاظت یقینی بنانے کے لیے وہ ہندو مسلم اتحاد کے پُرجوش حامی بن گئے۔ تاہم ان کی ان کوششوں کو ناکام بنادیا گیا۔

انڈین نیشنل کانگریس کے بانیوں میں ممتاز ہندو شامل تھے۔ ایک ایسے علاقے میں جہاں کئی مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں، کانگریس نے ’گنیش‘ اور ’شیو‘  کے نام پر ہندو تہوار منانے کا سلسلہ تو شروع کیا لیکن دوسرے مذاہب کے لیے ایسا کچھ نہیں کیا۔ کانگریس کا پہلا اجلاس 1885ء میں بمبئی (موجودہ ممبئی) میں منعقد ہوا جس میں صرف 2 مسلمانوں کو مدعو کیا گیا حالانکہ وہ ہندوستان کی کل آبادی کے  25 فیصد تھے۔مسلمانوں کو بے گانہ کردیا گیا  اور اس بے گانگی میں وقت کے ساتھ شدت آتی گئی۔ سیکولرازم پر یقین کے دعوے کے برخلاف، برطانوی ہند کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے رہنماؤں نے بے حسی کے ساتھ مہاتما (موہن داس گاندھی) اور پنڈت (جواہر لال نہرو) کے ہندو مذہبی القابات اپنائے۔ایک ایسے وقت میں جب مذہبی اور نسلی برتری کی وکالت کرنے والوں نے دنیا کو جنگ سے دوچار کر رکھا تھا، کانگریس کے لیے جمہوریت کا مطلب یہ تھا کہ اکثریتی ہندو آبادی تنہا ہی مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔

قاضی محمد عیسی محمد علی جناح کے ہمراہ

مسلم سلطنت دہلی اور مسلم مغل سلطنت 7 صدیوں تک قائم رہی اور اس طویل مدت تک حکمرانی کی ایک بڑی وجہ مختلف لوگوں، عقائد اور نسلوں کا احترام تھا۔ مغلوں کا تختہ الٹنے والے انگریزوں نے مسلم حکمرانوں کی اس مثال کی تقلید کی۔ اس کے برعکس برصغیر کے جن علاقوں پر بدھ مت کے ماننے والوں نے حکومت کی تھی انھیں ہندو حکمرانوں نے ملیا میٹ کیا  جو بدھ مت کی 7 صدیاں مٹا دینا چاہتے تھے؛ انھوں نے بدھ مت کے ماننے والوں کا صفایا کیا اور بدھ ثقافت کھرچ ڈالی۔ یہ اندیشہ بلا جواز نہیں تھا کہ اگر ان لوگوں کی حکومت آگئی جو خود کو آریائی کہتے تھے تو مسلمانوں کی زندگیاں اور کچھ نہیں تو من مانی اور غلبے کا تو نشانہ ضرور بنیں گی۔

مسلمانوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے  ہندو اکثریتی کانگریس کی جانب سے کوئی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ اس کا مسلسل موقف یہ رہا کہ اکثریت کے غلبے کےاصول پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ کانگریس کی ہٹ دھرمی نے محمد علی جناح کی زیرِ قیادت آل انڈیا مسلم لیگ اور دیگر لیگی رہنماؤں کو جوش بخشا، اور اقلیتی مسلمان گروہ  کو امید دلائی جس نے ناانصافیوں، امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کے خوف سے آزاد زندگی کا خواب دیکھا۔

1933 میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے قاضی محمد عیسی ساؤتھمپٹن پہنچے تھے

لندن سے واپسی پر میرے والد نے اپنی قانونی لیاقت اور پیشہ ورانہ مہارت کو ان اعزازات اور دولت کے حصول کے لیے استعمال نہیں کیا جو ان کا پیشہ انھیں دے سکتا تھا۔ اس کے بجائے انھوں نے اسے سماجی تبدیلی لانے کے لیے استعمال کیا اور پاکستان کی وکالت کے نامانوس اور غیر یقینی سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو خدشہ تھا کہ اگر برطانوی راج کا خاتمہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی پختہ ضمانتوں کے بغیر ہوا تو وہ ہمیشہ کے لیے اکثریتی آبادی کی خواہشات کے رحم و کرم پر رہ جائیں گے۔ کانگریس نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا تو درکنار، ایسے تحفظ کا وعدہ بھی نہیں کیا کہ مذہبی بنیادوں پر ظلم و ستم سے بے خوف اور مسلمان ہونے پر عذر خواہی کے بغیر اقلیتیں آزادی اور وقار کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گی۔

چونکہ کانگریس مسلمانوں کے جائز تحفظات کو دور کرنے میں ناکام رہی، اس لیے انھوں نے مسلم لیگ کی طرف ایک علیحدہ وطن کے حصول کی خاطر دیکھا- ایک ایسی سرزمین جہاں سب کے ساتھ یکساں اور احترام کا سلوک کیا جائے، جہاں کوئی مذہبی ظلم، کوئی امتیازی سلوک نہ ہو اور جہاں تمام لوگ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہوں۔ مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا محمد علی جناح کا تصور بہت پرکشش اور جاذب تھا۔

23 مارچ 1940 میں محمد علی جناح کی موجودگی میں قاضی محمد عیسی بلوچستان کے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہوئے قراردادِ پاکستان پیش کررہے ہیں

مسلمان مردوں اور عورتوں نے ایک آزاد ریاست کے لیے ووٹ دیا اور پاکستان 1947ء میں عالمی سطح پر سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک کی حیثیت سے ابھرا۔ خواب حقیقت بن گیا لیکن پاکستان کا بنیادی تصور  معمہ بنا رہا۔

پاکستان کے تصور کو اقتدار پر قبضہ کرنے والے بے ضمیروں نے گہنا دیا۔ ایک بیوروکریٹ (ریلوے سول سروس) سے گورنر جنرل بن گیا؛ اس نے دستور ساز اسمبلی کو برخاست کرکے اپنے مفادات کی نگہبانی کرنے والوں اور فوجی جوانوں کو اپنا وزیر بنادیا۔ اس کی تقلید دوسرے آمروں اور غاصبوں نے بھی کی جس کے نتیجے میں پاکستان 1971ء میں دو لخت ہوگیا۔ ملک کا مشرقی حصہ بنگلہ دیش بن گیا۔ ایک اور آمر نے اپنے آپ کو عقیدے کے سچے پیروکار کے مرتبے پر فائز کیا لیکن عمل اسلامی اصولوں کے خلاف کیا اور مختلف عقیدے اور فرقے سے تعلق رکھنے والوں سمیت شہریوں کے حقوق پامال کیے۔ اس نے وحشیانہ طاقت سے اپنی حکمرانی کو دوام بخشا اور ایک بہت ہی تاریک دہائی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ایک مختصر جمہوری وقفہ آیا مگر اسے ایک دوسرے آمر اور ریاست کے ایک ایسے تنخواہ دار ملازم نے پٹڑی سے اتار دیا جو اپنی برطرفی کو وقار کے ساتھ قبول نہیں کر سکا۔

بائیں ہاتھ کی جانب موجود قاضی محمد عیسی محمد علی جناح اور فاطمہ جناح کے ہمراہ

75  سال قبل پاکستان ہمیں ووٹ کے ذریعہ ملا تھا۔ ملک کو ان غیر جمہوری قوتوں نے توڑا اور پھر بچا کچھا ملک کمزور کرکے رکھ دیا جو اپنے سوا دوسروں کو محروم کرنے کی قائل ہیں، جنھوں نے اختلاف کے بیج بوئے، عدم برداشت کو فروغ دیا اور جمہوریت کو کمزور کردیا۔ پاکستان کا جشن منانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ پاکستان کے تصور کی بازیافت کی جائے، وہ تصور جو سب کو شامل کرنے کا اور  برداشت اور جمہوریت کو فروغ دینے کا تھا۔


یہ تحریر ابتدائی طور پر پاکستان کے 75 سال مکمل ہونے پر 15 مئی 2023 کو لندن اسکول آف اکنامک کے تحت چلنے والے میگزین میں ’دی آئیڈٰیا آف پاکستان‘ کے نام سے شائع ہوئی اور مصنف کی اجازت سے اس تحریر کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp