نیب ترمیمی ایکٹ 2023 قانون بننے کے بعد اب چیئرمین نیب کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ احتساب عدالتوں سے واپس نیب کو بھیجے گئے ریفرنسز کو کسی دوسرے ادارے یا ٹرائل کورٹ کو منتقل کریں جب کہ ساتھ ہی انہیں کیسز کی تحقیقات کا جائزہ لے کر انہیں ختم کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔
نئے نیب قوانین سے کس کو فائدہ ہو سکتا ہے؟
وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف رمضان شوگر ملز ریفرنس، سابق وزیراعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف پی ایس او میں غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق ریفرنس، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف رینٹل پاور کے 6 ریفرنس، سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف متبادل توانائی بورڈ کے کنسلٹنٹ کی غیر قانونی تعیناتی کے ریفرنس کا ٹرائل ہو رہا تھا۔ تاہم وہ مقدمات نیب ترمیم کے بعد احتساب عدالتوں نے نیب کو واپس کر دیے تھے، اور اب نئے نیب قوانین کے بعد چیئرمین نیب اس فیصلے کا اختیار رکھتے ہیں کہ ان کیسز کے ٹرائل کی ضرورت ہے، انہیں کسی اور تحقیقاتی ادارے کے سپرد کرنا چاہیے یا انہیں ختم کر دینا چاہیے۔
اس کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس، سینیٹر روبینہ خالد کے خلاف لوک ورثہ میں مبینہ خورد برد ریفرنس، یوسف رضا گیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈ ریفرنس، سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور اعجاز ہارون کے خلاف کڈنی ہلز ریفرنس اور سابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا سردار مہتاب عباسی کے خلاف پی آئی اے ریفرنسز بھی نیب کے پاس موجود ہیں۔
حکومت نے نیب قوانین میں ترمیم کیوں کی؟
پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی حکومت نے سال 2022 میں نیب قوانین میں ترمیم کی تھی جس کے بعد احتساب عدالتوں نے 300 سے زائد کرپشن ریفرنسز دائرہ اختیار ختم ہونے پر نیب کو واپس بھیج دیے تھے تاہم ایسے مقدمات کے لیے کوئی قانون نہ ہونے کے باعث یہ مقدمات نیب کے پاس موجود تھے۔
اب حکومت نے نیب ترمیمی ایکٹ 2023 کے ذریعے چیئرمین نیب کو مزید اختیارات دے دیے ہیں ار اب چیئرمین نیب کو اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ احتساب عدالتوں سے واپس ہونے والے نیب ریفرنسز اور انکوائریز کو بند کردیں یا انہیں کسی اور تحقیقاتی ادارے کے سپرد کر دیں۔
چیئرمین نیب کسی بھی انکوائری یا تحقیقات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا کیس بنتا ہے یا نہیں، انکوائری میں مطمئن نہ ہونے پر چیئرمین نیب کیس ختم کر سکتے ہیں اور کیس ختم کرنے پر گرفتار ملزم کی رہائی کی منظوری کے لیے معاملہ عدالت کو بھیج سکتے ہیں۔
نیب ترمیمی ایکٹ 2023 کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے اور اب نیا نیب قانون نافذ العمل ہوچکا ہے۔ حکومت نے نیب ترمیمی ایکٹ2023 میں نیب ایکٹ کے 17سیکشنز میں ترامیم پیش کی تھیں اور یہ ترمیمی بل 1999 سے نافذ العمل ہوگا۔
نئے نیب قوانین میں چیئرمین نیب کو کیا اختیارات حاصل ہوئے؟
نیب ترمیمی بل کے تحت زیر التوا انکوائریز جنہیں سب سیکشن 3 کے تحت ٹرانسفر کرنا مقصود ہو چیئرمین نیب غور کریں گے اور چیئرمین نیب کو اختیار ہو گا کہ کسی اور قانون کے تحت شروع انکوائریز بند کر دیں۔
چیئرمین نیب ایسی تمام انکوائریز متعلقہ ایجنسی ،ادارے یا اتھارٹی کو بھجوانے کے مجاز ہوں گے اور انکوائری میں مطمئن نہ ہونے پر چیئرمین نیب کیس ختم کرنے اور گرفتاری کی صورت میں ملزم کی رہائی کیلئے منظوری عدالت کو بھیجیں گے۔
چیئرمین نیب اگر کسی ادارے کو انکوائری کی ہدایت کریں گے تو متعلقہ اتھارٹی یا محکمہ انکوائری کا مجاز ہوگا اور عدالت مطمئن نہ ہونے پر کوئی بھی مقدمہ متعلقہ اداروں،ایجنسی یا اتھارٹی کو واپس بھجواسکے گی۔
قانون کے مطابق نیب عدالت سے مقدمے کی واپسی پرمتعلقہ محکمہ یااتھارٹی قوانین کےتحت مقدمہ چلاسکےگی۔ احتساب ترمیمی ایکٹ 2022،2023 سے پہلے جن مقدمات کا فیصلہ ہوچکا وہ نافذ العمل رہیں گے اور یہ فیصلے انہیں واپس لئے جانے تک نافذ العمل رہیں گے۔
نئے قانون میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی عدالت یا ایجنسی واپس ملنے والے مقدمے پرمزید کاروائی کی مجازہوگی اور نیب ایکٹ سیکشن 5 کےتحت زیر التواانکوائریز، تحقیقات اور ٹرائل قوانین کے تحت ہوسکے گی۔
چیئرمین نیب کی غیرموجودگی پر ڈپٹی چیئر مین نیب کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مجاز ہوگا اور ڈپٹی چیئرمین کی عدم دستیابی پر وفاقی حکومت سینیئر افسران کو قائم مقام چیئرمین بنانے کی مجازہوگی۔