مشہور اخبار کی سرخی ” لوگوں کو ہنسانے والے اداکار ننھا نے خود کشی کرلی” پڑھ کر کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ بات بات پر شگفتہ جملوں کا سہارہ لینے والے رفیع خاور عرف ننھا اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ 3 جون 1986 کو ملک کے مختلف اخبارات نے خصوصی طور پر اداکار ننھا کی موت کی خبر کو اہمیت دی جو ایک روز پہلے اس زندگی کو الوداع کہہ چکے تھے۔ خون میں آلود ننھا کی لاش کی تصویر شائع کی گئی ۔ سوال یہ بھی گردش کررہا تھا کہ کیا بے ضرر، چلبلے، شوخ و شنگ اور ہنس مکھ ننھا یہ انتہائی قدم بھی اٹھا سکتے ہیں، کیونکہ اُس زمانے میں ابلاغ کے ذرائع محدود تھے۔ اسی بنا پر مختلف قیاس آرائیاں بھی عروج پر رہیں۔ کسی نے اسے قتل قرار دیا تو کسی نے یہاں تک افواہ پھیلائی کہ ننھا قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بہرحال جائے وقوعہ پر ننھا کا لکھا ہوا آخری خط بھی ملا جس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے موت کو گلے لگا رہے ہیں اور اس میں کوئی قصور وار یا ذمہ دار نہیں۔ موت کی خبر نے جیسے ہر ایک کو اداس کردیا تھا۔ پرستار تو رنج و الم کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ پریشانی تو ان پروڈیوسرز کے چہرے پر بھی عیاں تھی جن کی فلموں میں ننھا کام کررہے تھے۔
الف نون سے وطن کے سپاہی
بینک میں بطور کلرک کام کرنے والے رفیع خاور کو اداکاری کا شوق جوانی سے رہا۔ اسٹوڈیوز کے چکر لگاتے لیکن کام نہیں ملتا۔ لاہور کے ایک صحافی کے ذریعے ہدایتکار شباب کیرانوی تک رسائی حاصل کی۔ جنہوں نے رفیع خاور کے موٹاپے کو دیکھ کر طنزیہ کہا کہ میاں اداکاری میں کیوں قسمت آزمارہے تمہاری جگہ تو کسی اکھاڑے میں ہے۔ رفیع خاور نے ان ریمارکس کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ 1965 میں جب پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا تو کمال احمد رضوی نے لارڈ اینڈ ہارڈی کی طرز پر “الف نون” بنانے کا ارادہ کیا، تو اس کے نون یعنی ننھا کے کردار کے لیے انہیں فربہ مائل شخص کی تلاش تھی جو دیکھنے میں معصوم اور بھولا بھالا بھی لگے۔ رفیع خاور کی خوش قسمتی کہ کمال احمد رضوی نے انہیں دیکھتے ہی منتخب کرلیا۔ یہ ڈراما بہت مقبول ہوا۔ جس کے ننھا کے کردار نے جیسے رفیع خاور کی اپنی پہچان بھلا دی اور لوگ انہیں ” ننھا ” سے پہچاننے لگے۔ یہ بھی اپنی جگہ حسین اتفاق ہے کہ ان کی شہرت اور مقبولیت شباب کیرانوی تک پہنچی تو انہوں نے اُسی صحافی سے رابطہ کیا جس نے ان کی پہلی ملاقات ننھا سے کرائی تھی اور یوں ننھا کو ہدایتکار شباب کیرانوی نے ہی پہلی بار 1966 میں فلم “وطن کے سپاہی” میں موقع دیا جس میں ننھا نے انہیں مایوس نہیں کیا۔ اس فلم کے بعد تو جیسے ننھا کی زندگی کا نیا سفر شروع ہوا۔
اپنی منفرد اور اچھوتی پہچان
رفیع خاور ننھا کو فلم نگری میں قدم جمانے کے لیے ان تھک محنت اور لگن کرنی پڑی۔ یہ وہ دور تھا جب رنگیلا، منور ظریف، لہری اور نرالا کا راج تھا۔ اور پھر بعد میں علی اعجاز کی موجودگی نے کامیڈین کی ایک فوج کھڑی کردی تھی جس کے ہوتے ہوئے ننھا نے چہرے کے تاثرات کے ساتھ ساتھ اپنی جسامت کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چند ہی برسوں میں وہ کامیڈین سے ہیرو بھی بنتے ہوئے نظر آئے۔
ہیروز سے زیادہ مقبول
ذرا تصور کریں کہ وحید مراد، ندیم، شاہد اور محمد علی کی موجودگی کے باوجود فلم سازوں کی کوشش ہوتی کہ ان کی فلم کے ہیرو ننھا بنیں۔ 1979 میں جب انہوں نے علی اعجاز کے ساتھ مل کر تفریح سے بھرپورفلم “دبئی چلو” میں کام کیا تو اس نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔ جس کے بعد ہر دوسری فلم میں علی اعجاز اور ننھا کو فلم ساز حصہ بناتے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر تخلیق کاروبار میں نمایاں رہتی۔ دونوں اداکاروں نے کم و بیش 50 سے زائد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا۔
کریکٹر کرداروں میں نمایاں
ننھا کی خاصیت یہ رہی کہ انہوں نے ہرطرح کے کرداروں میں خود کو نگینے کی طرح فٹ کرایا۔ سسر یا پھر والد یا پھر کسی نواب کے کردار میں وہ چہروں پر مسکان لانے والے جملوں کا استعمال کرتے۔ جسمانی ردعمل سے کامیڈی کا بہترین نمونہ پیش کرتے۔ ان کی اس سلسلے میں نوکر، سسرال، آواز، بھروسہ ، پلے بوائے اور وائٹ گولڈ جیسی فلمیں نمایاں ہیں۔ کریکٹرکرداروں میں ان کے ساتھ عموماً تمنا بیگم ہوتیں۔
نازلی سے محبت
رفیع خاور ننھا نے پہلی بار نازلی کے ساتھ پنجابی فلم “ٹہکا پہلوان” میں کام کیا تو ان کی اداکارہ کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی ایسی قائم ہوئی کہ آنے والے دنوں میں اس تعلق نے نئے نئے گل کھلائے۔ دونوں نے 50 سے زائد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا اور دونوں کی محبت کے قصے بھی عام ہوئے۔ جہاں ایک طرف انجمن اور سلطان راہی کی جوڑی ہوتی تو وہیں علی اعجاز اور ممتاز کی، تو اسی طرح رفیع خاور، نازلی کے ساتھ اسکرین پر جلوہ گر ہوتے تو سنیما گھروں میں ان کے نغموں کی گونج پر ہر کوئی جھوم اٹھتا۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود ننھا، نازلی کی زلفوں کے اسیر ہوگئے۔ عالم یہ تھا کہ ننھا خود فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو مجبور کرتے کہ ان کی ہر فلم میں نازلی کو منتخب کیا جائے۔
زوال اور بے حسی
لالی وڈ میں جب ایکشن اور مار دھاڑ والی فلموں کی بھرمار ہونے لگی تو ننھا کو فلم ساز شامل کرنے سے کترانے لگے۔ ستم ظریفی یہ کہ ننھا کی بیشتر فلمیں ناکامی سے بھی دوچارہونے لگیں تو ہر ایک نے ان سے نگاہیں پھیر لیں۔ اب کہا جاتا ہے کہ ان میں نازلی بھی شامل تھیں۔ اس عرصے میں ان کی اور نازلی کی شادی کی افواہیں بھی گردش کرنے لگی تھیں۔ جس پر ننھا کی پہلی بیوی سے تکرار معمول بن گئی۔
خود کشی والی رات کیا ہوا؟
عینی شاہدین کے مطابق ننھا نے جس روز موت کا انتخاب کیا اُس رات انہوں نے نازلی کے یہاں برتھ ڈے پارٹی میں شرکت کی۔ نصف شب کو وہ واپس لوٹے اور صبح کو ڈرائنگ روم میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ گھر والوں کو ان کی موت کا علم اُس وقت ہوا جب وہ صبح سو کر اٹھے اور انہوں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔ اہل خانہ کے پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق انہوں نے ننھا کو صوفے کے ساتھ ٹیک لگائے مردہ حالت میں دیکھا، جن کے آس پاس منجمد خون تھا۔ ننھا نے خودکشی اپنی ہی پستول سے کی۔ یہ وہی پستول تھا جو ننھا کی مسلسل مایوسی اور اضطرابی کیفیت دیکھ کر گھر والوں نے چھپا دی لیکن ننھا نے والدہ کو قسم کھا کریہ کہا کہ وہ پستول کریں کیونکہ انہیں اس کے لائسنس کی تجدید کرانی ہے۔ پولیس کے مطابق پستول پر ان کی انگلیوں کے نشان تھے۔ اخبارات میں یہ خبر تھی کہ ننھا نے کنپٹی پرپستول رکھ کر ٹریگر چلایا۔ پوسٹ مارٹم میں ان کی موت کا وقت صبح 4 سے 6 بجے بتایا گیا۔
خود کشی یا قتل ؟
گو کہ پولیس نے اس سارے واقعے کو خود کشی قرار دے کر ننھا کی فائل بند کردی لیکن کئی سوالوں کے جواب نہیں دیے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 3 جون 1986 کو جب اخبارات نے شہ سرخیوں کے ساتھ ننھا کی موت کی خبر شائع کی تو اس میں ابتدا سے ہی یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ یہ خودکشی ہے یا پھر قتل؟ ماہرین کا کہنا تھا کہ پولیس نے ننھا کی موت کو خود کشی قرار دے کر غیر ضروری جلد بازی دکھائی۔ اگر مزید چھان بین کی جاتی تو اس کیس میں کچھ نہ کچھ خود کشی کے پہلو سے ہٹ کر ان کے ہاتھ آتا۔ شکوہ یہ بھی کیا گیا کہ پولیس نے ننھا کے اہل خانہ سے درست پیرائے میں تحقیقات ہی نہیں کیں جو یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ننھا اس سے پہلے بھی کئی بار خودکشی کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔ ننھا کے گھر والے اداکارہ نازلی سے ان کے تعلقات پر سخت ناراض تھے جبھی ان کے گھر والوں سے ان کے تعلقات کشیدہ رہتے۔ ایک قیاس یہ بھی تھی کہ کامیڈین نے نازلی کا دل جیتنے کے لیے اپنی تمام تر جائیداد انہیں دینے کا فیصلہ کیا تھا تو کہیں یہی ارادہ ان کی موت کی وجہ تو نہیں بنا؟
نازلی کا موقف
نازلی سے جب پولیس نے تفتیش کی تو ان کا یہی دعویٰ تھا کہ ننھا نے ان سے شادی نہیں کی وہ اچھے دوست تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یقین نہیں آرہا کہ ننھا نے خود کشی کرلی۔ تصور بھی نہیں کرسکتی کہ ننھا ایسا کریں گے۔ سمجھ نہیں آرہا کہ ننھا نے ایسا کیوں کیا۔ صورتحال ایسی تھی کہ وہ ننھا کا آخری دیدار بھی نہیں کرسکتیں جس کا تمام عمر غم اور افسوس رہے گا۔ مجموعی طور پر 391 اردو، پنجابی، پشتو اور سندھی فلموں میں کام کرنے والے اداکار ننھا کو لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن (کریم بلاک) کے قبرستان میں آسودۂ خاک کیا گیا۔ حال ہی میں اداکار ننھا کا بڑا بیٹا محمد رضی 2 سال تک کینسر سے جنگ لڑنے کے بعد امریکا میں چل بسا جہاں وہ پولیس میں بطور سارجنٹ کام کررہا تھا۔