جب دو برطانوی حسینائیں پاکستانی کرکٹرز پر بھاری پڑ گئیں

جمعہ 2 جون 2023
author image

سمیع محمد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

’تم لوگ پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہی ہو ناں؟ اب کیوں نہیں مسکرا رہے تم لوگ؟‘

ویسٹ انڈیز کے سینیئر سیکیورٹی آفیسر نے سامنے کھڑے خون آلود وسیم اکرم، سسکیاں بھرتے مشتاق احمد اور یارکر کنگ عاقب جاوید اور وقار یونس کو دیکھ کر غراتے ہوئے کہا۔

ایک روز قبل ہی میچ ریفری کے ایک متنازع فیصلے کی بدولت پاکستانی ٹیم نے پہلی بار کیریبیئن میں کوئی سیریز برابر کی تھی اور تماشائیوں کی مداخلت کے پیشِ نظر ایک ٹائی میچ کو پاکستان کی فتح قرار دیے جانے پہ ویسٹ انڈین شائقین کے جذبات خاصے مجروح ہوئے تھے۔ ویسٹ انڈین سیکیورٹی آفیسر کے لہجے کا طنز بھی اسی قومی غصے کا غماز تھا۔

90 کی دہائی کی پاکستانی سیاست ہو، میوزک ہو کہ کرکٹ، کبھی ہنگامے سے خالی نہیں رہی۔ گویا مارشل لا کے گھٹن زدہ 11 سال ختم ہونے پر سماج کو جب معاشرتی آزادی کی کچھ ہوا لگی تو ضبط کے کئی بندھن ٹوٹ  گئے تھے۔

90 کی دہائی کی پاکستانی سیاست ہو، میوزک ہو کہ کرکٹ، کبھی ہنگامے سے خالی نہیں رہی۔

وسیم اکرم کی قیادت ابھی نوآموز ہی تھی مگر ہونہار بروا نے اپنے چکنے چکنے پات دکھانا شروع کر دیے تھے کہ تاریخ میں پہلی بار پاکستانی ٹیم جزائرِ کیریبیئن میں کوئی ون ڈے سیریز برابر کر پائی تھی۔ اور جب اس تشفی آمیز نتیجے کے بعد پاکستانی ٹیم نے جارج ٹاؤن سے بارباڈوس اور پھر گریناڈا کو اڑان بھری تو ایک سائیڈ میچ کے لیے انہیں سینٹ جارج کے ساحلی ریزارٹ میں قیام فراہم کیا گیا۔

اپنی تازہ ترین خود نوشت ’سلطان‘ میں وسیم اکرم رقمطراز ہیں کہ ریزارٹ کے جوار میں واقع گرینڈ اینز بیچ انہیں ایک خوشگوار پناہ گاہ سی محسوس ہوئی۔ وقار یونس، مشتاق احمد، معین خان اور عاقب جاوید کے ہمراہ وہ ساحل کا لطف اٹھانے نکلے اور اسٹیریو پلیئر ساتھ لیے، انہوں نے قریبی ریستوران سے چکن بھی آرڈر کیا۔ خواب گوں رات اپنی رعنائیوں کے ساتھ لمحہ لمحہ گزر رہی تھی کہ دو خوبرو برطانوی خواتین آن پہنچیں۔

سوزین روس اور یون کوگلین دو برطانوی دفتری سیکرٹریز تھیں جو اپنے دفتر کی جانب سے ایک پیکج ٹور پہ جزائرِ کریبیئن کی سیر کو آئی تھیں۔ ان کے بقول وہ چالیس کے پیٹے میں تھیں مگر نوجوان پاکستانی کرکٹرز کی ایمان شکن نگاہوں کو وہ چالیس سے کہیں کم، نوخیز دکھائی دے رہی تھیں۔

رات کے 10 بجے اور معین خان مزید سی ڈیز لانے ہوٹل روانہ ہوئے تو ان میں سے ایک خاتون نے پاکستانی کھلاڑیوں کو ’جوائنٹ‘ یعنی چرس بھرا سگریٹ پینے کی پیشکش کی جس کے جواب میں پہلے تو پاکستانی کرکٹرز نے پاکیزگی بھرے تامّل کا اظہار کیا مگر پھر خود کلامی میں خود ہی طے کر لیا کہ بھلا ’ایک کش لگانے میں حرج بھی کیا ہے؟‘

مگر اس سے پہلے کہ یہ پاکستانی کرکٹرز اپنے حواس مجتمع کر پاتے، یکایک سادہ کپڑوں میں ملبوس کیریبیئن پولیس اہلکار بندوقیں لہراتے ان کا گھیراؤ کر چکے تھے۔ عاقب جاوید اور وقار یونس دم بخود کھڑے تھے۔ مشتاق احمد اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ رونا ہی شروع کر دیا۔ خود وسیم اکرم ہڑبڑاہٹ میں یوں جلدی سے کھڑے ہوئے کہ ان کا ماتھا وہاں نصب ایک دھاتی سن بیڈ سے جا ٹکرایا اور خون کا فوارہ ابل پڑا۔

عمران خان کے مشورے کی روشنی میں وسیم اکرم نے اس تجویز کو رد کر دیا جو پاکستان کرکٹ کے لیے مزید خفت آمیز تاریخ کا باعث بن سکتی تھی۔

پولیس نے چاروں کرکٹرز کی جامہ تلاشی لی جو کوئی ’ثبوت‘ فراہم نہ کر پائی۔ مگر پھر ان خواتین کے بیگ کے قریب چند بجھے ہوئے سگریٹوں کے ٹکڑے مل گئے جنہیں بطور ثبوت اکٹھا کیا گیا اور پاکستانی کرکٹرز کو نزدیکی ’امبریلا کیفے‘ لے جایا گیا جہاں موجود سینیئر سیکیورٹی آفیسر نے غراتے ہوئے کہا، ’اب تم لوگ مسکرا کیوں نہیں رہے؟‘

شب 11 بجے کے لگ بھگ معین خان نے ٹیم مینجر خالد محمود کو جگایا جو مدثر نذر اور جاوید میانداد کے ہمراہ پولیس اسٹیشن پہنچے جہاں انہیں آگاہ کیا گیا کہ ان چاروں کھلاڑیوں پہ ممنوعہ ادویات کی ملکیت کا الزام عائد کیا جائے گا۔ مگر خالد محمود کی معاملہ فہمی کی بدولت شب ڈھائی بجے تک 2400 پاؤنڈ کے عوض چاروں کھلاڑیوں کی ضمانت حاصل کر لی گئی۔

مگر اس ضمانت سے بات تھمی نہیں بلکہ کہانی برساتی کھمبیوں کی مانند افزائش کرنے لگی ۔ ریورس سوئنگ کا ڈسا ہوا برطانوی میڈیا پہلے ہی موقع کی تاک میں تھا کہ کسی طرح سے دو ڈبلیوز کی جوڑی کو عیار اور دغاباز ثابت کیا جا سکے۔ پاکستانی اخبارات نے بھی اپنے حصے کا بھرپور کیتھارسس کیا۔

 ٹیم میٹنگ میں جاوید میانداد اور رمیز راجہ نے کیریبیئن پولیس کے اس سلوک پر احتجاجاً دورہ ملتوی کر کے وطن لوٹنے کا مشورہ دیا مگر ایک فون کال پہ عمران خان کے مشورے کی روشنی میں وسیم اکرم نے اس تجویز کو رد کر دیا جو پاکستان کرکٹ کے لیے مزید خفت آمیز تاریخ کا باعث بن سکتی تھی۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس قضیے کا بھرپور مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور خالد محمود گریناڈا کے وزیراعظم سے ملے۔ اس ملاقات میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب خالد محمود گفتگو کے بیچ اٹھے اور پرائم منسٹر ہاؤس کی کھڑکی کا پردہ ہٹا کر لان میں موجود گھاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’وزیراعظم صاحب! کیا آپ جانتے ہیں کہ اس لان کی گھاس میں اگر کوئی شجرِ ممنوعہ دریافت ہو جائے تو اس کے لیے ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا؟ آپ کو!‘

شب 11 بجے کے لگ بھگ معین خان نے ٹیم مینجر خالد محمود کو جگایا جو مدثر نذر اور جاوید میانداد کے ہمراہ پولیس اسٹیشن پہنچے

وزیراعظم نے حیرت سے پلٹ کر ملاقات میں موجود اپنے اٹارنی جنرل کی جانب دیکھا جس نے اثبات میں سر ہلایا۔

خالد محمود نے اپنے کھلاڑیوں کا مقدمہ ان قانونی بنیادوں پہ لڑا کہ میرے کھلاڑی نہ تو اپنے گھر میں تھے، نہ ہی اپنے ہوٹل میں۔ بلکہ وہ تو ایک کھلی پبلک بیچ پر تھے جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی جا سکتا ہے اور ہزاروں لوگوں کی آمد و رفت کی جگہ سے 4 سگریٹ کے ٹکڑے اکٹھے کر کے بطور ثبوت پیش کیا جانا نہایت مضحکہ خیز تھا۔

بہرطور اس دلیل کے وزن کی بنا پہ الزامات واپس لے لیے گئے اور یوں پاکستانی ٹیم اگلے ٹیسٹ میچ کے لیے ٹرینیڈاڈ روانہ ہوئی جہاں برطانوی اخبار ’دی سن‘ نے اپنا نمائندہ وسیم اکرم اور وقار یونس کے انٹرویو کو بھیجا۔ مگر ستم ظریفی کہیے کہ یہ انٹرویو بھی کسی تسکین کی بجائے ایک اور طوفانِ بلاخیز کا موجب ٹھہرا۔

’دی سن‘ سے گفتگو میں وسیم اکرم نے اپنی پاک دامنی بیان کرتے ہوئے کہہ ڈالا کہ انہیں چرس سے کبھی کوئی رغبت ہی نہیں رہی۔ ہاں البتہ وہ کبھی کبھار بیئر پی لیتے ہیں اور اس ٹور پر زندگی میں پہلی بار انہوں نے رم پی ہے کیونکہ یہ کریبیئن کا مشہور ڈرنک ہے، سو انہوں نے ایک بار اسے بھی آزمانے کا سوچا۔ وگرنہ تو وہ میچ کے بعد ڈریسنگ روم میں ہمیشہ دودھ پیا کرتے ہیں۔

عاقب جاوید اور وقار یونس دم بخود کھڑے تھے۔ مشتاق احمد اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ رونا ہی شروع کر دیا۔

دودھ کی بات شاید وسیم اکرم نے اپنے گرو عمران خان سے متاثر ہو کر کہی جن کے بارے مشہور ہے کہ وہ ایک نائٹ کلب میں شراب سے انکار کر کے دودھ منگواتے پائے گئے تو ارب پتی جمائما گولڈ اسمتھ کی توجہ ان کی جانب مرکوز ہوئی کہ یہ کون عجب دماغ ہے جو نائٹ کلب کی گہما گہمی میں دودھ کے ایک گلاس پہ اکتفا کرنے کو آن پہنچا ہے۔

بہرطور، اس قصے میں تو دودھ کے حوالے سے ہمدردی سمیٹنے کی یہ خواہش وسیم اکرم کی بھول ہی ٹھہری کیونکہ جب ’دی سن‘ کا وہ انٹرویو پاکستانی اخبارات و جرائد کے مترجمین کے ہاتھ لگا تو مذہبی جذبات رکھنے والے معاشرے میں ایک نیا طوفان اٹھ کھڑا ہوا جسے تھامنے کو ویسی ہی کارکردگی درکار تھی جو سیریز کے پہلے میچ میں پاکستانی بولنگ نے دکھائی جب انہوں نے 63 رنز کے عوض 10 وکٹیں حاصل کر کے ویسٹ انڈیز کی سورما بیٹنگ لائن کو محض 127 رنز پر ڈھیر کر دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp