کوئٹہ: دکی کوئلہ کان میں ایک ماہ سے پھنسے کان کن، زندہ یا مردہ؟

جمعہ 2 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے 320 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ضلع دکی کی مقامی کوئلہ کان سے قریباً ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کان میں پھنسے کان کنوں کو ریسکیو نہیں کیا جا سکا۔

4 مئی کو دکی کی مقامی کوئلہ کان میں سیلابی پانی بھر جانے سے کان منہدم ہو گئی تھی جس میں 2 مزدور جن کی شناخت 22 سالہ عبدالباقی اور 26 سالہ شریف الدین کے نام سے ہوئی، کوئلہ کان میں پھنس گئے۔ ابتدائی طور پر مقامی افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت ملبا ہٹانا شروع کیا لیکن بعد ازاں ضلعی انتظامیہ اور محکمہ مائنز اینڈ منرلز کی جانب سے باقاعدہ آپریشن کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

ڈی پی او دکی صبور آغا نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2 کان کنوں کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ آپریشن میں کوئلہ کان کے درمیانی حصے کی 7 سو فٹ تک کھدائی کی جا چکی ہے تاہم مسلسل بارش سے کوئلہ کان میں بار بار پانی بھر جاتا ہے جس سے ریسکیو آپریشن میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ امدادی سرگرمیوں کو وسعت دیتے ہوئے کان کی چاروں اطراف سے کھدائی شروع کی گئی ہے۔ ڈی پی او نے مزید بتایا کہ ریسکیو آپریشن مکمل ہونے کے بعد حادثے کی تحقیقات شروع کی جائیں گی۔

کوئلہ کان حادثے کے شکار ہونے والے مزدوروں کے اہل خانہ بھی غم نے نڈھال ہیں۔ کان میں پھنسے مزدور کے قریبی رشتے دار عبدالستار کے مطابق حادثے کے بعد سے وہ روزانہ کی بنیاد پر جائے حادثہ کا چکر اس امید سے لگاتے ہیں کہ شاید آج ان کے پیاروں کو ہزاروں ٹن ملبے سے نکال لیا گیا ہوگا۔ گھروں میں بھی ایک بے چینی سی ہے کا ہمارے پیارے زندہ ہیں یا نہیں؟

کوئلہ کان میں دب جانے کے کتنی دیر بعد تک کوئی زندہ رہ سکتا ہے؟

کوئلہ دنیا بھر کے ان علاقوں میں دریافت کیا جا چکا ہے جو سمندر کی سطح سے بلندی پر واقع ہیں جبکہ زیر زمین کوئلہ 7 سو سے ایک ہزار فٹ پر پایا جاتا ہے جہاں زمین کی نسبت ہوا میں آکسیجن کا تناسب 20 فیصد کم ہوتا ہے ایسے میں کوئلہ جو کاربن کی خالص ترین شکل ہے اور آکسیجن کا براہ راست دشمن ہے ان کوئلہ کانوں میں آکسیجن زمین کی نسبت 30 فیصد تک کم ہو سکتی ہے جس میں مسلسل کام کرنا یا رہنا ممکن نہیں ایسے میں ایک ماہ تک کان میں پھنسے رہے والے مزدور کا 2 یا 3 دن سے زیادہ زندہ رہا ممکن نہیں ہوتا۔

دوسری جانب طبی ماہرین کے مطابق کوئلہ کان میں کام کرنے والے مزدوروں کو اکثر دمے، پھیپھڑوں کی بیماری، آکسیجن کی مسلسل کمی کی وجہ سے انہیں عصابی بیماریاں بھی جکڑ لیتی ہیں۔ جس سے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدور کینسر جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

کوئلہ کان میں حادثات کی شرح کم کیوں نہ ہوسکی؟

محکمہ مائنز اینڈ منرل کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس بلوچستان کے مختلف اضلاع میں کوئلہ کانوں گیس بھر جانے اور کان منہدم ہونے کے 17 واقعات رونما ہوئے جن میں 26 کان کن جاں بحق ہوئے۔ کوئلہ کانوں میں بڑھتے حادثات کی سب سے بڑی وجہ مائنز ایکٹ پر مکمل عملدرآمد نہ ہونا ہے، اس کے علاوہ کان کنی کے دوران لگائی جانے والی لکڑی کی ناقص چھتیں اور کینڈل ٹیسٹ نہ کرنے کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ تاہم اس کی روک تھام کے لیے حکومت کو سنجیدہ پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp