ہفتے کے روز پشاور میں سرکاری بس سروس بی آر ٹی کی بسیں معمول کے مطابق چل رہی ہیں۔ لیکن سروس کو چلانے والی نجی کمپنی نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ بقایاجات کی عدم ادائیگی کے باعث بس سروس کسی بھی وقت بند ہو سکتی ہے۔ جبکہ محکمہ ٹرانسپورٹ نے نجی کمپنی کو جلد ٹرمینل خالی کرنے کی ہدایت کر دی۔
بی آر ٹی چلانے والی کمپنی ڈائیوو نے ایک ماہ کے اندر تیسری بار حکومت کو مراسلہ ارسال کیا ہے۔ جس میں موقف اپنایا ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں سے ان کو ادائیگیاں نہیں کی گئیں جس سے انہیں شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، نتیجتاً بی آر ٹی بس سروس کو مزید فعال رکھنا کمپنی کے لیے مشکل ہے۔
اس حوالے سے کمپنی کا یہ بھی موقف ہے کہ بی آر ٹی سروس کے ذمہ دار سرکاری کمپنی Trans Peshawar کے ذمہ 754 ملین کے بقایاجات ہیں، جب کہ دیگر چار کمپنیوں کے بھی حکومت پہ 300 ملین بقایاجات ہیں۔
اصل معاملہ کیا ہے؟
محکمہ ٹرانسپورٹ اور نجی کمپنی کے درمیان ادائیگیوں کا مسئلہ اچانک سامنے آیا ہے اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ نجی کمپنی نے اب بس سروس کو عارضی یا مطالبات کی منظوری تک بند کرنے کے حوالے حکومت کا تحریری طور پر آگاہ بھی کر دیا ہے۔ لیکن تمام تر معاملات سے باخبر حکام کے مطابق بقایاجات کی ادائیگی بڑا ایشو نہیں بلکہ اس کے پیچھے کچھ اور محرکات ہیں۔
ایک باخبر افسر نے بتایا ہے کہ نگران حکومت آنے کے بعد بی آر ٹی کے معاملات خراب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ نگران حکومت اور وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق اس منصوبے میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی ہے۔
متعلقہ افسر نے وی نیوز کو بتایا کہ بی آر ٹی میں کافی حد تک مداخلت ہو رہی ہے۔ افسر کے بقول موجودہ سیٹ اپ گزشتہ دور حکومت میں نجی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے سرکاری کمپنی Trans Peshawar کے سیٹ اپ میں تبدیلی کرکے وزیر ٹرانسپورٹ کو چیئرمین بنانے پر بھی کام کیا جا رہا ہے جو رول کے خلاف ہے۔
نجی کمپنی کا کیا موقف ہے؟
نجی کمپنی ڈائیوو نے ایک ماہ میں تیسری بار نگران وزیر اعلیٰ، وزیر ٹرانسپورٹ اور ایڈیشنل چیف سکیریٹری کو مراسلہ ارسال کیا ہے۔ تینوں مراسلات میں بقایاجات کی ادائیگی کے حوالے سے کہا گیا ہے۔
یکم جون کو ارسال مراسلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اخراجات کے لیے فنڈز نہ ہونے کے سبب کمپنی کے لیے بس سروس بحال رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ اگر جلد ادائیگی نہ ہوئی تو بس سروس کسی بھی وقت بند کر سکتے ہیں۔
نجی کمپنی کے مطابق ان کے حکومت کے ذمے 754 ملین روپے جبکہ دیگر چار کمپنیوں کے 300 روپے ملین بقایاجات ہیں۔ Trans Peshawar کے پاس فنڈز ہونے کے باوجود بھی ادائیگی نہیں ہو رہی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث اُسے 1800 ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور آپریشن جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ کمپنی نے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا ہے اس صورتحال میں بی آر ٹی آپریشن کسی بھی وقت بند کرنا پڑ سکتا ہے۔
محکمہ ٹرانسپورٹ نے ٹرمینل خالی کرنیکی ہدایت کردی
نگران وزیر ٹرانسپورٹ خیبر پختونخوا نے اپنے ہی محکمے کے انتظامی سیکریٹری کو مراسلہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے بی آر ٹی سروس اور نجی کمپنی کے حوالے سے ہدایات دی ہیں۔
وی نیوز کو موصول خط میں نگران وزیر ٹرانسپورٹ نے بی آر ٹی بسوں کی آپریٹر کمپنی کو ان کے بقایاجات کے 50 فیصد ادا کرنے کا کہا ہے۔ جبکہ باقی کی ادائیگی کمپنی کی جانب سے ٹرمینل خالی کرنے کے بعد کیے جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ کمپنی کے ساتھ لیز معاہدہ اکتوبر 2022 میں ختم ہو چکا ہے۔ بورڈ میٹنگ کے فیصلے کے مطابق کمپنی کونوٹس بھی دیا جا چکا ہے۔ وی نیو کو دستیاب مراسلے میں لکھا ہے کہ بی آر ٹی ٹرمینل کو ڈائیوو سے جلد خالی کرانے کے لیے انتظامات کیے جائیں۔
مراسلے میں معاہدہ ختم ہونے کے بعد سے کمپنی سے 10 فیصد کے حساب سے ریکوری بھی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیر ٹرانسپورٹ نے مزید لکھا ہے کہ بی آر ٹی کو چلانے کے لیے تمام کمپنیوں کو ابھی تک جتنی بھی ادائیگیاں ہوئیں ہیں ان کی مکمل تفصیلات انہیں فراہم کی جائے تاکہ آڈٹ کیا جائے۔
تحریک انصاف کا ’فلیگ شپ‘ منصوبہ بی آر ٹی
بی آر ٹی بس سروس صوبائی دارالحکومت پشاور میں پہلا ماس ٹرانزٹ منصوبہ ہے جس کے ذریعے عوام کو آرام دہ سفری سہولت فراہم کی گئی ہے۔ یہ تحریک انصاف کا ’فلیگ شپ‘ منصوبہ ہے۔ بی آر ٹی پر تعمیراتی کام کا آغاز اکتوبر 2017 میں ہوا تھا اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اسے 6 ماہ میں پورا کرنے اعلان کیا تھا مگر یہ منصوبہ بروقت مکمل نہیں ہو سکا۔
بی آر ٹی بسوں کے لیے پشاور شہر کے بیچوں بیچ 27 کلومیٹر طویل خصوصی ٹریک تعمیر کیا گیا ہے جو چکنی سے کارخانو بازار تک جاتا ہے۔
بی آر ٹی سروس مین کولیڈور کے علاوہ مختلف فیڈز روٹ پر بھی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 3 لاکھ سے زائد شہری اس سے مستفید ہورہے ہیں۔