ماریہ کی جب شادی ہوئی تو اس کے ذہن میں بس یہی بات موجود تھی کہ اس کا مقصد ایک اچھی بیوی اور ماں بننا ہے اور اسی معاشرے میں پروان چڑھنے والا اس کا شوہر علی بھی اپنی بیوی سے یہی امید لگائے بیٹھا تھا کہ وہ اس کی ہر ضرورت کو پورا کرے گی۔وقت گزرتا رہا اور ماریہ اور علی اپنے اپنے کردار نبھاتے رہے، جہاں ماریہ کا مقصد صرف اور صرف علی کو ہر صورت میں خوش رکھنا ہے جبکہ علی خود کو اس سب کا حق دار سمجھنے لگتا ہے اور اپنی بیوی کی طرف سے کی گئی دیکھ بھال کا عادی ہو جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا رشتہ بن گیا ہے، جہاں دونوں انفرادی طور پر آگے نہیں بڑھ پا رہے ہوتے۔ ماریہ اور علی کی کہانی اگرچہ فرضی ہے، لیکن یہ صورت حال ایک حقیقت کی صورت میں کئی گھرانوں میں عام ہے۔ایک دوسرے پر اس قسم کے انحصار کو نفسیات میں کوڈپینڈنسی (co-dependency) کا نام دیا گیا ہے۔ کوڈپینڈنسی ایسے تعلق کو کہتے ہیں جہاں ایک شخص کسی رشتے میں صرف ’دینے‘ کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے جبکہ دوسرا شخص صرف ’وصول‘ کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہےضروری نہیں کہ یہ صورت حال ہر ازدواجی تعلق میں پائی جائے، لیکن کو ڈپینڈنسی کو سمجھنے کے لیے یہ ایک عام مثال ہے، جس سے کم از کم برصغیر کا ہر شخص واقف ہے۔
امریکی ریاست ایریزونا میں واقع ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی میں ماہر نفسیات ڈاکٹر ایمی ویسر باؤر کو ڈپینڈینسی کو ایک ’خطرناک کیفیت‘ قرار دیتے ہیں، جس میں مبتلا شخص خود کو اس قدر بھلا دیتا ہے کہ اسے یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ زندگی میں اسے کیا چاہیے یا بحیثیت انسان اس کی بھی دنیا میں کوئی اہمیت ہے۔
بقول ڈاکٹر ایمی ’ایسا شخص یہ سیکھ لیتا ہے کہ اپنی خواہشات قربان کرنے کا نام ہی پیار ہے۔ اکثر وہ اپنے رومانوی ساتھی کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بھی بنتا ہے۔ افسوس کے ساتھ، ایسے شخص نے اپنی ڈور دوسرے شخص کے ہاتھ میں دے رکھی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ نہ اپنے لیے آواز اٹھا پاتا ہے اور نہ ہی مدد طلب کر سکتا ہے۔‘
کو ڈپینڈینسی کی وجوہات کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اکثر کوئی شخص اس کیفیت میں اس وقت مبتلا ہوتا ہے جب بچپن یا جوانی میں ان کا واسطہ خاندان کے کسی ایسے شخص کے ساتھ پڑا ہو، جن کے مطالبات بہت ہوں۔ڈاکٹر ایمی کے مطابق اس صورت حال میں وہ بچہ اس شخص کا خیال رکھنے کی خاطر اپنا بچپنا چھوڑ دیتا ہے۔ نفسیات میں اس کے لیے ’ایڈلٹ چائلڈ‘ یا ’پیرینٹیفائڈ چائلڈ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
جب ان سے ایسی کیفیت میں مبتلا شخص کی مدد کے بارے میں پوچھا گیا تو ڈاکٹر ایمی نے بتایا کہ انہوں نے کو ڈپینڈینسی میں رہنے والے لوگوں کا علاج کیا ہے اور نفسیاتی علاج یا ’تھیراپی‘ سے ایسے لوگوں کو اپنی ذات کو جانچنے میں مدد ملی، یعنی تھیراپی کی مدد سے وہ کم از کم اس کیفیت سے اس حد تک نکل گئے کہ انہیں احساس ہوا کہ ان کی بھی ضروریات، جذبات اور احساسات ہیں۔ ڈاکٹر ایمی کہتی ہیں کہ ’ہم سب کے اندر ایک بچہ موجود ہوتا ہے اور ایسی صورت حال میں اکثر وہ بچہ زخمی پایا جاتا ہے۔‘
تاہم اگر غور کریں تو ایسی صورت حال صرف رومانوی رشتوں میں نہیں نظر آئے گی بلکہ یہ والدین، بچوں، دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ تعلقات میں بھی پائی جاسکتی ہے۔’بے یونڈ کو ڈیپینڈنسی‘ نامی کتاب کی مصنفہ میلوڈی بیٹی کہتی ہیں کہ کوڈیپینڈنسی کا تعلق ماضی کے افراد اور واقعات سے ہوتا ہے۔
اس کیفیت کے شکار اکثر افراد پریشان کن یا بے ترتیب گھریلو نظام میں پلے بڑے ہوتے ہیں۔ مصنفہ لکھتی ہیں کہ کوڈپینڈنسی کے شکار شخص کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس کی زندگی کچھ اصولوں کے تحت چل رہی ہوتی ہے۔ ان اصولوں کے مطابق اسے اپنے احساسات محسوس کرنا یا ان کے بارے میں بات کرنا منع ہے، صرف اچھا اور پرفیکٹ بن کر رہنا ہے، لوگوں پر یا خود پر اعتبار نہیں کرنا اور اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ اس کی کسی بھی حرکت سے اس کے خاندان کا کوئی نقصان نہ ہو۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کو ڈپینڈنسی کا شکار شخص اپنے بارے میں تصور کرتا ہے کہ وہ پیار کے قابل یا کسی اچھی چیز کے لائق نہیں اور اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’رین فیلڈ‘ میں ایک ڈریکولا اور اس کے غلام کی مثال دیتے ہوئے اسی صورت حال کو بیان کیا گیا ہے۔فلم میں دکھایا گیا ہے کہ رابرٹ رین فیلڈ ایک پڑھا لکھا شخص ہے جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے مالی حالات بہتر بنانے نوکری کی تلاش میں غیر ملک پہنچتا ہے، جہاں اس کا واستہ ڈریکولا سے پڑتا ہے۔
کئی دہائیاں گزر جاتی ہیں اور رابرٹ رین فیلڈ ڈریکولا کی غلامی میں زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے۔ ڈریکولا کی دی گئی طاقتوں کے ذریعے وہ اس کے روز مرہ کے کام کرتا ہے، جیسا کہ ڈریکولا کو انسانی خون فراہم کرنا وغیرہ۔جب بھی کبھی رابرٹ رین فیلڈ نے ڈریکولا سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی تو ڈریکولا نے اسے یہ کہہ کر روک لیا کہ اس کے علاوہ کوئی اس کا حامی اور مددگار نہ ہوگا۔
رابرٹ رین فیلڈ کو اپنی زندگی کی تنگی کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ ایک ایسے گروپ کا حصہ بنتا ہے، جو ایسی صورت حال سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس گروپ میں شامل تمام لوگ اپنے کسی قریبی رشتے کی بے جا خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہیں اور انہیں انکار بھی نہیں کر سکتے۔اگر غور کریں تو ایسے واقعات فلموں تک محدود نہیں۔حقیقت میں بھی ہم میں سے کئی افراد کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایک ایسا شخص ضرور رہا ہے، جس نے ’ڈریکولا‘ والا کردار ادا کیا ہوگا لیکن ہمیں خود کو اس ’غلامی‘ سے نکالنے کی کم از کم ایک کوشش ضرور کرنی چاہیے