‎عورت ہوں مگر صورتِ کہسار کھڑی ہوں

اتوار 4 جون 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

میر والہ کی پنچایت لگی ہوئی ہے۔ پنچایت تتلہ اور مستوئی قبیلے کے مابین ایک پیچیدہ معاملے کو نمٹانے کے لیے بلائی گئی ہے۔

دونوں قبیلے کے افراد وہاں ایسے مستعد موجود ہیں جیسے کوئی تماشا ہونے کو ہے۔ ویسے پنچایتوں اور جرگوں میں تماشے ہی تو لگتے ہیں۔

تتلہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی مختاراں مائی کے خاندان پر دُہری افتاد آن پڑی ہے۔ چند دن قبل ہی مختاراں کے 12 سالہ کھلنڈرے بھائی شکور کو مستی قبیلے کے چند اوباش نوجوانوں نے اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ ملزمان نے سزا سے بچنے کے لیے بچے کو اس سے دُگنی بڑی عمر کی اپنی بہن کے ساتھ ایک کوٹھری میں بند کر دیا اور بچے پر بہن کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام لگایا۔ مستوئی قبیلے کی طاقت کے سامنے پنچایت نے کاروکاری کا فیصلہ سنانے کے بجائے ’وٹہ سٹہ‘ کی شادی کا حکم سنایا۔

جس طرح طاقت و فرعونیت کے نشے میں مستوئی قبیلے کے نوجوانوں نے ایک 12 سالہ بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر پھر اسی مظلوم کو ایک زنا کار کے طور پر پیش کیا تھا اسی طرح انہیں پنچایت کا فیصلہ بھی ایک آنکھ نہ بھایا۔

مستی میں چور مستوئی قبیلے کے نوجوانوں کو تو ایک  چسکا جو پڑا ہوا تھا۔ تتلہ کے لوگ تو ان کے سامنے کیڑے مکوڑے جو ٹھہرے تھے۔
بے شک انہیں بے آبرو کر کے مسل ڈالو۔۔۔

کون ہے جو ان کے خلاف کھڑا ہو کر گواہی دے گا؟

کون سی عدالت ہے جہاں ایسے گھناؤنے جرائم پر پردہ ڈالنے والے کارندے نہیں موجود ہوں گے؟

سو مستوئی قبیلے نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنے فرسودہ رسم و رواج کی رو سے جنسی زیادتی کا بدلہ جنسی زیادتی کر کے لینے کا مطالبہ کیا۔

مختاراں مائی کے گھر والے پہلے ہی ایک ناگہانی عذاب سے نبرد آزما نہ ہو پائے تھے کہ یہ دوسرا قہر نازل ہونے کو تھا۔

مختاراں کے خاندان کی در ماندگی کا عالم کیا ہوگا۔ اس کا اندازہ صرف وہی لگا سکتے ہیں جو ایسے جبر و قہر کا شکار ہوتے ہیں۔ جرگے نے مستیوں کے حق میں فیصلہ دیا۔

مختاراں 21 سال کی ایک خوبصورت عورت ہونے کے علاوہ دنیاوی اونچ نیچ سے واقف اور سمجھ بوجھ بھی رکھتی تھی۔

اپنی زندگی اپنی طرز پر گزارنے کے خواب دیکھنے والی لڑکی مختاراں بی بی۔۔

مستوئی قبیلے کے اوباش نوجوانوں کو اس کی اِسی ادا کو تو کیفر کردار تک پہنچانا مقصود تھا۔ انہیں اس سے اچھا بہانہ کب ہاتھ آتا۔ سو اسی سمے مختاراں مائی کو جرگے کے رو برو پیش ہونے کا حکم صادر ہوا۔

اُس لڑکی نے حتی الامکان مزاحمت کی لیکن صیاد کے آگے ایک بلبل کی اوقات ہی کیا تھی؟

مختاراں کو گھسیٹ کر پنچایت میں لایا گیا۔ بااثر افراد اور سر پنچ کے سامنے 4 مردوں نے اس کی عزت کو بار ہا تار تار کیا۔
مختاراں کی چیخیں آسماں سے ٹکراتی رہیں، آہ و زاری اور مزاحمت زمین کا سینہ چیرتی رہی لیکن نہ آسمان گرا نہ زمین پھٹی۔

مستیوں کے اندر کا شیطان ابھی مزید گھناؤنی کارروائیوں پر آمادہ تھا۔

بدمست مستیوں نے زخموں سے چُور نہتی عورت کو بے لباس پورے قبیلے میں گھما کر اس کی انا کو اپنے پیروں تلے کچلنے کا پورا اہتمام کیا۔
اتنے سفاک، ایسے تکبر اور بربریت سے لیس سانحے کی مثال اکیسویں صدی میں کہاں ملے گی جس میں قبیلے کے پتھر دل شرفا اور بزرگ بے حس آنکھوں سے اپنے سامنے ایک حوا کی بیٹی کی عزت کو پامال ہوتے دیکھتے رہے؟

لیکن عرض ہے کہ ایسی کئی ان کہی داستانیں اس سرزمین پر آئے دن رونما ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مختاراں بی بی نے اس ظلم پر ظالموں کے سامنے چپ نہیں سادھی۔

پدر شاہی سماج کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔

اپنی عزت اور انا پامال کرنے والوں کو خودکشی کر کے تسکین نہیں پہنچائی۔

ریپ جیسے گھناؤنے جرم کے خلاف ڈٹ کر کھڑی رہی اسی لیے مختاراں بی بی امر ہے۔ بے زبان مظلوم عورتوں کی آواز ہے۔

سانحے کے وقت مختاراں بی بی کی چیخیں بے شک آسمان سے ٹکرا کر واپس آگئی تھیں لیکن اس کی ایک للکار نے اس دنیا کے باسیوں کو چپ توڑنے کا نسخہ ضرور سمجھا دیا۔

‎اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں

‎عورت ہوں مگر صورتِ کہسار کھڑی ہوں

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp