آٹا، گھی، پیٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اچانک کمی عارضی یا مستقل؟

اتوار 4 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح سے ہرخاص وعام پریشان ہے۔ مگر گزشتہ ہفتے اشیا خورونوش کے علاوہ دیگر چیزوں کی قیمتوں میں اچانک واضح کمی دیکھی گئی ہے۔

گزشتہ ہفتے کے دوران اشیا خورونوش میں شامل آٹے کے 15 کلو تھیلے کی قیمت میں 400 روپے، مختلف برانڈ کے گھی کی قیمت میں 69 روپے، کوکنگ آئل کی قیمت میں 76 روپے فی لیٹر کمی کی گئی جب کہ پیٹرول کی قیمت میں 8 روپے اور ڈیزل کی قیمت میں 5 روپے تک کی کمی ہوئی۔

اس کےعلاوہ سب سے زیادہ لیکوڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی ) کے گھریلو سلنڈر کی قیمت میں تقریباً 139 روپے کی کمی آئی ہے۔

اگر ڈالر کی قیمت کی بات کی جائے تو31 مئی کو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 311 روپے تک جا پہنچی تھی، جو جمعرات یکم جون کی دوپہر دو بجے تک اچانک 12 روپے کمی کے ساتھ 299 روپے 50 پیسے پرآ گئی۔

ڈالرکی قیمت میں کمی کے بعد فی تولہ اور دس گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 5400 روپے اور 4629 روپے کی بڑی کمی سامنے آئی ۔

گزشتہ کچھ مہنیوں کے مقابلے میں مئی میں ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی شرح میں اضافہ تو ہوا ہے، مگر اس کے باوجود گزشتہ ہفتے مہنگائی کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 0.3 فی صد معمولی اضافہ ہوا جس کے بارے میں توقع کی جا رہی ہے کہ یہ عوام کے لیے زیادہ پریشان کن ثابت نہیں ہو گا۔

یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوا ہے کہ اچانک سے اشیا خورونوش سمیت دیگرچیزوں کی قیمتوں میں کمی کی اصل وجہ کیا ہے۔ کہیں یہ آئندہ پیش کیے جانے والے بجٹ میں عوام کے لیے ریلیف کا اشارہ تو نہیں ہے؟

اس سوال پر بات کرتے ہوئے شہبازرانا کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں چیزوں کی قیمتوں میں ردو بدل کے تحت کچھ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے مگر ملکی معیشت اس قابل نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت تو کوشش کر رہی ہے کہ عوام کو بجٹ میں ریلیف دیا جائے مگر ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کی شرح میں 38 فی صد تک کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔

ڈالر کی قیمت میں مصنوعی کمی مسئلے کا حل نہیں ہے

ڈالرکی قیمتوں میں کمی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت میں کمی اور روپے کی قدر میں اضافہ، سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے کریڈٹ کارڈ کی بین الاقوامی ادائیگی کے لیے ڈالراوپن مارکیٹ کے بجائے انٹربینک مارکیٹ سے حاصل کرنے کی اجازت دینے کے باعث ہوا ہے۔

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے 2006 میں ایک سرکلر کے ذریعے بینکوں کو امریکی ڈالر ایکسچینج کمپنیوں سے خریدنے کی اجازت دی تھی، جسے 17 سال بعد ختم کر دیا گیا ہے۔

کیا 1 سے 2 ہفتوں بعد قیمتیں دوبارہ بڑھ جائیں گی ؟

شہباز رانا کا کہنا ہے کہ چیزوں کی قیمتوں یا پھر ڈالر کی قیمت میں مصنوعی کمی کرنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ کیوں کہ 1 سے 2 ہفتوں بعد دوبارہ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری معیشت یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔

ایکسچینج ریٹ مستحکم ہے

معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر پام آئل کی قیمتیں کافی ٹائم سے کم ہو رہی تھیں۔ مگر ہماری مقامی صنعت قیمتیں کم نہیں کررہی تھی۔ مگراب حکومت نے پام آئل کی درآمدات پر پابندی ختم کی ہے تو آئل اور گھی کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ چیزوں کی قیمتوں میں کمی اس لیے بھی آئی ہے کیوں کہ انٹر بینک ایکسچینج ریٹ مستحکم ہے۔

ماہرمعاشیات خرم دستگیر نے اچانک قیمتوں میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ رمضان کے بعد بہت سی چیزوں کی قیمتوں میں بیشتر اوقات کمی آجاتی ہے، اس کے علاوہ اشیا کی ترسیل میں بھی بہتری آئی ہے۔

عوام کو بجٹ میں ریلیف ملنا مشکل ہے

بجٹ میں عوام کو ریلیف ملنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مشکل ہے کہ عوام کوکوئی ریلیف مل سکے کیوں کہ ابھی تک ہمارا عالمی مالیاتی فنڈ (ٓئی ایم ایف ) سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا ۔

انتخابات سے قبل ڈالر کی قیمت میں کمی کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوگا کیوں کہ پاکستان کے پاس ڈالر کے ذخائر ہی موجود نہیں ہیں۔

کراچی انسٹیٹیوٹ آف بزنس (آئی بی اے) کے اکانومی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ناصر کا کہنا ہے کہ اشیا خورونوش کی قیمتوں میں جو کمی آئی ہے اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے، یہ ایک سیاسی فیصلہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جو دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ڈالر 290 روپے کا مل رہا ہے توایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ جہاں تک قیمتوں کی بات ہے ان میں جو تھوڑی بہت کمی آئی ہے وہ کچھ عرصے کے لیے ہی ہے۔ یہ قیمتیں دوبارہ واپس اپنی جگہ پر چلی جائیں گی۔

ڈالر کے حوالے سے اکانومی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کا مزید کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا خاص طور پر اگر ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام میں نہیں جاتے۔

اگلا مالی سال بہت مشکل ہے

ڈاکٹر محمد ناصر نے مزید بتایا کہ اگلے مالی سال (یعنی جولائی 2023 سے جون 2024) کے لیے پاکستان کو تقریباً 30 سے 35 بلین ڈالر چاہیے ہوں گے اسی کے ساتھ قریباً 25 بلین ڈالر قرضہ بھی واپس کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ملک کی معیشت چلانے کے لیے بھی 8 سے 10 بلین ڈالر چاہیے ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کو دوست ممالک بھی قرضہ نہیں دے رہے کیوں کہ ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام تا حال حاصل نہیں کر پائے اس کے علاوہ ’آئی ایم ایف‘ پرگرام کے لیے ان کی شرائط ماننا بھی ضروری ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرپاکستان عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام میں نہ جا سکا توڈالر 350 روپے تک بھی جا سکتا ہے جس سے پاکستان ڈیفالٹ کی جانب بھی جا سکتا ہے

ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ پروگرام میں جانے کے باوجود بھی ڈالر کی قیمت میں کمی کا امکان موجود نہیں ہے پھر بھی ڈالر 300 کے قریب ضرور جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp