پاکستان بھر میں مہنگائی کی نئی بلندترین سطح کو چھونے والی گندم اور آٹے کے نرخ قدرے کم ہوئے لیکن افغان سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے چترال کے مکین گزشتہ کئی روز سے سستی گندم اور آٹے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔
چترال کے مختلف علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے احتجاجی مظاہروں کے بعد اب بات اتالیق پل پر روزانہ دھرنے تک پہنچ چکی ہے۔
مظاہرین کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ علاقے کی مخصوص جغرافیائی حیثیت، ماحولیاتی مسائل اور دوردراز ہونے کی وجہ سے سبسڈائزڈ آٹا مہیا نہ کر کے حکومت عوام کے لیے پریشانی پیدا کر رہی ہے۔
احتجاج میں حکومت سے کہا جا رہا ہے کہ وہ آٹا مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرے جو مبینہ طور پر لوگوں کو لوٹنے اور گندم و آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ملوث ہے۔
چترال کے مکینوں کے مطابق محکمہ خوراک اور ضلعی انتظامیہ کی سازشوں کی وجہ سے ضلع کے عوام گندم کے سبسڈی والے آٹے سے محروم ہیں۔
چترال میں دس روز سے جاری دھرنے کے منتظمین میں سے ایک شجاع الحق کا کہنا ہے کہ ہماری عوامی تحریک پر امن اور آئینی ہے۔ اور اس کے دو مطالبات ہیں۔ پہلا یہ کہ چترال کو گلگت کے نرخ پر گندم فراہم کیا جائے اور دوسرا چترال کے ملز
مافیا کو ختم کیا جائے۔
احتجاجی دھرنے کے نویں دن شرکاء سے گفتگو!#WheatCrisis #Chitral pic.twitter.com/jXp5CM3ZDL
— Muhammad Shuja ulhaq Baig (@ShujaulHaqBaig) June 4, 2023
احتجاج کرنے والوں کے مطابق چترال کے مکینوں کو قصدا غیر معیاری آٹا فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ سرکاری کوٹے کے تحت دی جانے والی گندم اسمگل کر کے اس سے منافع کمایا جا رہا ہے۔
مظاہرین نے متعلقہ حکام کو مشورہ دیا کہ سبسڈی والے آٹے کو سرکاری گودام میں ذخیرہ کیا جائے جہاں سے ماضی کی طرح اسے لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔
چترال اپر
ہیڈکوارٹر بونی میں احتجاجی مظاہرہ۔ گلگت کے ریٹ پر گندم کا مطالبہ #WheatCrisis #Chitral pic.twitter.com/x7jebRMife— Muhammad Shuja ulhaq Baig (@ShujaulHaqBaig) June 4, 2023
جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ نے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ حل نہ ہوا تو رواں برس ہونے والا جشن شندور میلہ نہیں ہونے دیں گے۔
چترال میں مناسب قیمت پر آٹے کی فراہمی کے لیے کئی روز سے ہونے والے دھرنے کے جائز مطالبات پرحکومت کیوں چپ ہے؟ صوبائی حکومت اگر دور دراز علاقوں میں ان کے اپنے پیسوں سے خریدنے کے لیے آٹے کا بندوبست نہیں کرسکتی تو وہ اورکیا تیر مارے گی، چترال عوامی دھرنے کا مطالبہ فورا” پورا کیا جاۓ https://t.co/JXDB2X8l6d
— Afrasiab Khattak (@a_siab) June 4, 2023
یاد رہے کہ شندور پولو فیسٹیول ہر سال 07 سے 09 جولائی کے درمیان چترال میں شندور کے مقام پر منعقد ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے پولو کے کھلاڑی شرکت کرتے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی ہوتا ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے احتجاجی دھرنے کے منتظمین میں شامل سابق ضلع ناظم اور جماعت اسلامی کے رہنما حاجی مغفرت شاہ کا کہنا ہے کہ دس روز سے ایک بنیادی نوعیت کے معاملے پر دھرنا دے رہے ہیں، مسئلہ حل ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
چترال میں آٹے کی قلت اور مہنگے آٹے کا مسئلہ کیا ہے؟
چترال کی مخصوص جغرافیائی حیثیت اور ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے حکومت طویل عرصے سے یہاں کے مکینوں کو رعایتی نرخوں پر آٹا اور گندم فراہم کر رہی تھی۔
ماضی میں اہل چترال کو سرکاری گودام سے آٹا ملا کرتا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق چترال کے تقریبا ہر گاؤں میں غلہ مراکز موجود ہیں۔
حاجی مغفرت شال کے مطابق مقامی سطح پر فلور ملز شروع ہوئیں تو گندم کی 30 تا 40 فیصد مقدار ملوں کو دینا شروع کر دیا گیا۔ فلور ملز نے تین اقسام کا آٹا بنا کر فائن کے نرخ ساڑھے پانچ ہزار فی 100 کلو سے بڑھا کر 11 ہزار روپے کر دیے۔
مقامی رہنما کے مطابق یہ ملیں سرکار سے گندم 57 سے 60 روپے لے کر خریدار کو مہنگے داموں بیچ رہی تھیں۔ اسی دوران گندم کی قیمتیں بڑھیں تو ملوں نے مزید نرخ بڑھا دیے۔
وی نیوز سے گفتگو میں حاجی مغفرت شاہ نے بتایا کہ حکومت 1975-76 سے ٹرانپسورٹیشن سبسڈی دیا کرتی تھی جس کی وجہ سے اہل چترال کو غلہ مناسب نرخوں پر ملا کرتا تھا۔
موجودہ صورتحال کے متعلق انہوں نے کہا کہ جغرافیائی حالات کی وجہ سے محض دو فیصد زمین قابل کاشت ہے۔ گزشتہ سیلاب نے رہی سہی زراعت بھی تباہ کر دی۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی حکومتی سبسڈی کی وجہ سے چترال سے ملحقہ گلگت کے ضلع غذر میں گندم 2000 روپے 100 کلو مل رہی ہے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک ہی جیسے مقام، ماحول، غربت اور ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے اگر گلگت بلتستان کے سات اضلاع میں سبسڈائزڈ نرخوں پر اشیا فراہم کی جا رہی ہیں تو مرکزی حکومت چترال کو بھی سبسڈائزڈ آٹا فراہم کرے۔
حاجی مغفرت شاہ کے مطابق جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے بھی وزیراعظم شہباز شریف تک یہ مسئلہ پہنچایا ہے، امید ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ البتہ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم اپر چترال اور لوئر چترال میں احتجاج جاری رکھیں گے۔
ان کے مطابق ہمیں توقع ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اس معاملے پر توجہ دیں گے اور چترال کے مسائل حل کریں گے۔
احتجاج میں کون کون شامل ہے کہ جواب میں انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی سمیت پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، جے یو آئی سمیت چترال کی تمام سیاسی جماعتیں، تاجر، سول سوسائٹی، سرکاری ملازمین، وکلا اور میڈیا سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ شمالی علاقہ جات میں منعقد ہونے والے مشہور زمانہ شندور میلے پر بائیکاٹ کے سائے پڑے ہوں۔ 2010 میں خیبرپختونخوا حکومت سے حدبندی تنازعہ کے وجہ سے گلگت بلتستان کی حکومت نے جشن شندور پولو میلے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔