سبسڈائزڈ آٹا نہ ملا تو جشن شندور نہیں ہونے دیں گے، پریشان حال چترالیوں کا اعلان

پیر 5 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان بھر میں مہنگائی کی نئی بلندترین سطح کو چھونے والی گندم اور آٹے کے نرخ قدرے کم ہوئے لیکن افغان سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے چترال کے مکین گزشتہ کئی روز سے سستی گندم اور آٹے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔

چترال کے مختلف علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے احتجاجی مظاہروں کے بعد اب بات اتالیق پل پر روزانہ دھرنے تک پہنچ چکی ہے۔

مظاہرین کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ علاقے کی مخصوص جغرافیائی حیثیت، ماحولیاتی مسائل اور دوردراز ہونے کی وجہ سے سبسڈائزڈ آٹا مہیا نہ کر کے حکومت عوام کے لیے پریشانی پیدا کر رہی ہے۔

احتجاج میں حکومت سے کہا جا رہا ہے کہ وہ آٹا مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرے جو مبینہ طور پر لوگوں کو لوٹنے اور گندم و آٹے کی مصنوعی قلت پیدا کرنے میں ملوث ہے۔

چترال کے مکینوں کے مطابق محکمہ خوراک اور ضلعی انتظامیہ کی سازشوں کی وجہ سے ضلع کے عوام گندم کے سبسڈی والے آٹے سے محروم ہیں۔

چترال میں دس روز سے جاری دھرنے کے منتظمین میں سے ایک شجاع الحق کا کہنا ہے کہ ہماری عوامی تحریک پر امن اور آئینی ہے۔ اور اس کے دو مطالبات ہیں۔ پہلا یہ کہ چترال کو گلگت کے نرخ پر گندم فراہم کیا جائے اور دوسرا چترال کے ملز
مافیا کو ختم کیا جائے۔

احتجاج کرنے والوں کے مطابق چترال کے مکینوں کو قصدا غیر معیاری آٹا فراہم کیا جا رہا ہے جبکہ سرکاری کوٹے کے تحت دی جانے والی گندم اسمگل کر کے اس سے منافع کمایا جا رہا ہے۔

مظاہرین نے متعلقہ حکام کو مشورہ دیا کہ سبسڈی والے آٹے کو سرکاری گودام میں ذخیرہ کیا جائے جہاں سے ماضی کی طرح اسے لوگوں میں تقسیم کیا جائے۔

جماعت اسلامی کے رہنما اور سابق ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ نے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ حل نہ ہوا تو رواں برس ہونے والا جشن شندور میلہ نہیں ہونے دیں گے۔

یاد رہے کہ شندور پولو فیسٹیول ہر سال 07 سے 09 جولائی کے درمیان چترال میں شندور کے مقام پر منعقد ہوتا ہے جس میں دنیا بھر سے پولو کے کھلاڑی شرکت کرتے ہیں اور ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی ہوتا ہے۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے احتجاجی دھرنے کے منتظمین میں شامل سابق ضلع ناظم اور جماعت اسلامی کے رہنما حاجی مغفرت شاہ کا کہنا ہے کہ دس روز سے ایک بنیادی نوعیت کے معاملے پر دھرنا دے رہے ہیں، مسئلہ حل ہونے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔

چترال میں آٹے کی قلت اور مہنگے آٹے کا مسئلہ کیا ہے؟

چترال کی مخصوص جغرافیائی حیثیت اور ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے حکومت طویل عرصے سے یہاں کے مکینوں کو رعایتی نرخوں پر آٹا اور گندم فراہم کر رہی تھی۔

ماضی میں اہل چترال کو سرکاری گودام سے آٹا ملا کرتا تھا۔ مقامی افراد کے مطابق چترال کے تقریبا ہر گاؤں میں غلہ مراکز موجود ہیں۔

حاجی مغفرت شال کے مطابق مقامی سطح پر فلور ملز شروع ہوئیں تو گندم کی 30 تا 40 فیصد مقدار ملوں کو دینا شروع کر دیا گیا۔ فلور ملز نے تین اقسام کا آٹا بنا کر فائن کے نرخ ساڑھے پانچ ہزار فی 100 کلو سے بڑھا کر 11 ہزار روپے کر دیے۔

مقامی رہنما کے مطابق یہ ملیں سرکار سے گندم 57 سے 60 روپے لے کر خریدار کو مہنگے داموں بیچ رہی تھیں۔ اسی دوران گندم کی قیمتیں بڑھیں تو ملوں نے مزید نرخ بڑھا دیے۔

وی نیوز سے گفتگو میں حاجی مغفرت شاہ نے بتایا کہ حکومت 1975-76 سے ٹرانپسورٹیشن سبسڈی دیا کرتی تھی جس کی وجہ سے اہل چترال کو غلہ مناسب نرخوں پر ملا کرتا تھا۔

موجودہ صورتحال کے متعلق انہوں نے کہا کہ جغرافیائی حالات کی وجہ سے محض دو فیصد زمین قابل کاشت ہے۔ گزشتہ سیلاب نے رہی سہی زراعت بھی تباہ کر دی۔

Chitral protest for sunsdized flour
سبسڈائزڈ آٹا نہ ملنے کی وجہ سے چترال میں دس روز سے دھرنا دیا جا رہا ہے (فوٹو: شجاح الرحمن، ٹوئٹر)

انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی حکومتی سبسڈی کی وجہ سے چترال سے ملحقہ گلگت کے ضلع غذر میں گندم 2000 روپے 100 کلو مل رہی ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک ہی جیسے مقام، ماحول، غربت اور ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے اگر گلگت بلتستان کے سات اضلاع میں سبسڈائزڈ نرخوں پر اشیا فراہم کی جا رہی ہیں تو مرکزی حکومت چترال کو بھی سبسڈائزڈ آٹا فراہم کرے۔

حاجی مغفرت شاہ کے مطابق جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے بھی وزیراعظم شہباز شریف تک یہ مسئلہ پہنچایا ہے، امید ہے کہ یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔ البتہ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم اپر چترال اور لوئر چترال میں احتجاج جاری رکھیں گے۔

ان کے مطابق ہمیں توقع ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اس معاملے پر توجہ دیں گے اور چترال کے مسائل حل کریں گے۔

احتجاج میں کون کون شامل ہے کہ جواب میں انہوں نے بتایا کہ جماعت اسلامی سمیت پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، جے یو آئی سمیت چترال کی تمام سیاسی جماعتیں، تاجر، سول سوسائٹی، سرکاری ملازمین، وکلا اور میڈیا سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ شمالی علاقہ جات میں منعقد ہونے والے مشہور زمانہ شندور میلے پر بائیکاٹ کے سائے پڑے ہوں۔ 2010 میں خیبرپختونخوا حکومت سے حدبندی تنازعہ کے وجہ سے گلگت بلتستان کی حکومت نے جشن شندور پولو میلے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp