بھوپت ڈاکو، جو اسلام قبول کرنے کے بعد امین یوسف بن گیا

منگل 6 جون 2023
author image

عقیل عباس جعفری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان بننے کے بعد ملک میں جس ڈاکو نے بڑی شہرت پائی اس کا نام بھوپت ڈاکو تھا۔ بھوپت ڈاکو کا تعلق جونا گڑھ سے تھا۔
جونا گڑھ کی ریاست ایک خوش حال ریاست تھی اور اس کی یہی خوش حالی ڈاکوؤں کو بہت راس آتی تھی۔ قیام پاکستان سے پہلے جونا گڑھ کے جن ڈاکوؤں نے بڑی شہرت پائی ان میں ہیرا، جھینا اور بھوپت ڈاکو بہت مشہور تھے۔ ان ڈاکوؤں کے لاتعداد واقعات لوک داستانوں جیسی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ بھوپت ڈاکو کوسینھ اور باروٹیہ سوراٹھ کہا جاتا تھا۔ گجراتی زبان میں سینھ کے معنی شیر کے ہیں باروٹیہ ڈاکو کو کہتے ہیں۔ باروٹیہ کے دوسرے معنی باغی کے ہیں جو اپنی آن بان اور شان کی خاطر ظلم کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔
اقبال پاریکھ نے اپنی کتاب ’جونا گڑھ اجڑے دیار کی کہانی‘ میں لکھا ہے کہ ’بھوپت کے والد کا نام مہرو جی تھا۔ بھوپت اور اس کا ساتھی دان سنگھ دونوں راجپوت تھے، بھوپت کا بچپن چالا رادھاری کے پرودی گاؤں میں گزرا تھا جہاں وہ اپنے ماموں کے پاس رہتا تھا۔ جب امروڑہ کو واگھڑیا دربار کی گدی ملی تو بھوپت نے امرواڑہ سے نوکری کی درخواست کی۔ امر واڑہ نے بھوپت کی بہادری اور نڈر پن کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے باڈی گارڈ کے طورپر ملازم رکھ لیا۔ بھوپت میں کمال کی پھرتی اور ہمت تھی، وہ بلا کا نشانے باز تھا ، اس کے علاوہ جیپ چلانا اور بندوق چلانا اسے خوب آتا تھا۔ وہ گھڑ سواری میں بھی مہارت رکھتا تھا، کسی بھی مصیبت اور پریشانی میں وہ راستہ تلاش کرلیتا تھا، لڑائی کے دوران وہ خطرات سے کھیلنا اور بچ کر نکلنا جانتا تھا، وہ سرکس کے ہیرو جیسا تھا، شکل و صورت اور حلیہ تبدیل کرنے میں اسے خصوصی مہارت حاصل تھی یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی اسے پکڑ نہیں سکتا تھا۔ بھوپت سیر و تفریح کا دلدادہ تھا، کبھی کبھی وہ جونا گڑھ کے ہریش سنیما کے منیجر کو اطلاع کرکے اپنے لیے نشست مخصوص کرواتا اور بھیس بدل کر فلم دیکھ لیا کرتا تھا‘۔

اقبال پاریکھ نے مزید لکھا ہے کہ جب تحریک آزادی کے دنوں میں ہندوستان میں عارضی حکومت بنی اور کاٹھیاواڑ جنگ کا میدان بن گیا تو بھوپت نے اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اقبال پاریکھ کے مطابق سردار ولبھ بھائی پٹیل نے بھوپت کو چھوٹے شیوا جی کا خطاب دیا اور اسے انعام و اکرام کا لالچ دے کر مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا شروع کیا۔ جونا گڑھ میں مقیم میمن برادری نے اس بات کی شکایت گاندھی جی سے کی، جب بھوپت کو یہ بات پتا چلی تو اس نے گاندھی کو پیغام بھیجا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ ظالموں کے خلاف جنگ کررہا ہے۔ امر واڑہ کے راجا کو یہ بات پسند نہیں آئی اور اس نے پھوپت کے خلاف محاذ بنالیا۔ اس نے بھوپت کو گرفتار کرنے کی کوشش بھی کی لیکن بھوپت حلیہ تبدیل کرکے روپوش ہوگیا۔
بھوپت ڈاکو کی دہشت پوری ریاست جونا گڑھ میں تھی۔ وہ ہر ظلم و زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا، ظلم و جبر سے نفرت اس کی فطرت میں شامل تھی۔ وہ امیر بنیوں اور جابر مہاجنوں کو لوٹتا اور مظلوموں اور غریبوں کی امداد کرتا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس نے سینکڑوں یتیم بچیوں کی شادیاں بھی کروائی تھیں۔ حکومت، جاگیردار، پولیس سب ہی اس سے خوف زدہ رہتے۔ جونا گڑھ کی عورتیں اپنے بچوں کو سلانے اور ڈرانے کے لیے بھوپت ڈاکو کو نام استعمال کرتی تھیں۔ بھوپت ڈاکو کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ واردات کرنے سے پہلے پیشگی اطلاع کرتا، مزے کی بات یہ ہے کہ اس پیشگی اطلاع کے باوجود وہ واردات کرنے میں کامیاب ہوجاتا اور انتظامیہ ناکام رہ جاتی۔
بھوپت ڈاکو نے بھارت میں سوراشٹر میں لوٹ مار اور قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اس کے خلاف 200 سے زائد قتل اور ڈاکوں کا الزام تھا۔ بھارتی حکومت نے بھوپت کی گرفتاری پر پچاس ہزار روپے انعام دینے کا اعلان بھی کر رکھا تھا۔
بھوپت ڈاکو قیام پاکستان کے بعد پاکستان آگیا۔ جہاں 6 جون 1952ء کوروزنامہ جنگ میں انتہائی معتبر ذرائع سے حاصل ہونے والی ایک خبر کے مطابق اسے اس کے 3 ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا۔


دلچسپ بات یہ تھی کہ بھارت میں اتنے زیادہ جرائم میں ملوث ہونے اور اپنی گرفتاری پر اتنے بھاری انعام کے اعلان کے باوجود بھوپت ڈاکو پاکستان میں کسی فوجداری جرم میں ملوث نہیں تھا۔ اسے بلاپرمٹ پاکستان میں داخل ہونے اور بغیر لائسنس ہتھیار رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت کو جب پاکستان میں بھوپت ڈاکو کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو اس نے حکومت پاکستان سے درخواست کی کہ بھوپت کو بھارت کے حوالے کردیا جائے مگر اس وقت تک دونوں ممالک کے درمیان جرائم پیشہ افراد کے تبادلے یا بھاگے ہوئے لوگوں کو واپس کرنے سے متعلق کوئی معاہدہ طے نہیں پایا تھا اس لیے بھوپت پاکستان ہی میں رہا۔یہ معاملہ اتنا اہم سمجھا گیا کہ بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرہ سے اس سلسلے میں ذاتی طور پر درخواست کی۔ محمد علی بوگرہ نے کہا کہ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ بھوپت کو بھارتی سرحد کے پار دھکیل دیں جہاں بھارتی پولیس اسے گرفتار کرلے مگر یہ خبر پریس میں لیک ہوگئی اور پاکستان اپنی اس پیشکش سے دستبردار ہوگیا۔
بھوپت ڈاکو کو محض ایک سال کے بعد رہائی نصیب ہوگئی۔ قید کے دوران اس نے ایک عالم دین مولانا محمد یوسف کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ اس کا اسلامی نام امین رکھا گیا تاہم اس نے اپنے محسن عالم دین کی اجازت سے ان کا نام اپنے نام میں شامل کیا اور امین یوسف کہلانے لگا۔ امین یوسف نے رہائی کے بعد ایک مسلمان خاتون حمیدہ بانو سے شادی کرلی جس سے اس کے 3 بیٹے اور 4 بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کے نام محمد فاروق، محمد رشید، محمد یٰسین، نجمہ، بلقیس، پروین اور بائی ماں ہے۔ امین یوسف کراچی میں دودھ کے کاروبار سے وابستہ رہا۔ اس کی دودھ کی دکان پاکستان چوک پر واقع تھی۔
سنہ 1960 کی دہائی میں اسے فلم جاگ اٹھا انسان میں قادو مکرانی کا کردار ادا کرنے کی پیش کش ہوئی لیکن بھوپت نے انکار کردیا، بعد ازاں امین یوسف حج کی سعادت سے بھی فیض یاب ہوا۔
امین یوسف نے جیل میں اپنی داستان کالو وانک راوت وانک نامی ساتھی کو گجراتی زبان میں تحریر کروائی جس کا اردو ترجمہ جعفر منصور نے کیا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن سنہ 1957 میں سکھر سے اور 2017ء میں کراچی سے شائع ہوا۔ امین یوسف کا انتقال 28 ستمبر 1996ء کو کراچی میں ہوا اور وہ کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp