بنگلہ دیش میں نسل کشی کے نام نہاد افسانے اور حقائق

بدھ 7 جون 2023
author image

ڈاکٹر فاروق عادل

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ڈھاکا کے ایک اخبار  Daily Star کی خبر نظر سے گزری تو پروفیسر سجاد حسین کی یاد آئی۔ پروفیسر صاحب راج شاہی اور ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے اور نجیب الطرفین بنگالی۔ پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب ‘ شکست آرزو’ (The Wastes of Time)  میں ایک عجب واقعہ لکھا ہے۔

لکھتے ہیں کہ وہ نومبر 1971ء کی انیس تاریخ تھی جب مرکزی دروازہ توڑ کر کچھ لوگ گھر میں گھس آئے اور انہوں نے میری بیوی اور بیٹی سے تکرار شروع کر دی۔ میری سمجھ میں آ گیا کہ وہ مجھے لینے آئے ہیں۔ قضا ٹلنے کے لیے نہیں آتی لہذا میں نے فیصلہ کیا کہ مزاحمت فضول ہے، جہاں لے جانا چاہتے ہیں، چل پڑنا چاہیے۔ میں یہی کرتا لیکن بیوی اور بیٹی نے میری رائے سے اختلاف کیا اور مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ کسی پیارے کو جلاد سے بچانے کے لیے کوئی اس سے زیادہ کر ہی کیا سکتا ہے لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور حملہ آوروں نے اس کمرے کا دروازہ بھی توڑا اور مجھے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے ساتھ لے گئے۔

حملہ آور کون تھے اور راستے بھر وہ اس بوڑھے پروفیسر کے ساتھ کیا کچھ کرتے رہے، یہ داستان طویل ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی دیگر محب وطن بنگالیوں کی طرح پاکستان کی یک جہتی پر یقین رکھتے تھے اور اپنے رائے کے اظہار سے گریز نہیں کرتے تھے۔ انھیں اغوا کرنے والے حملہ آوروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے پروفیسر صاحب کو بہت مواقع دیے لیکن وہ باز نہیں آئے لہذا اب وہ اپنے انجام یعنی موت کے لیے تیار ہو جائیں۔

پروفیسر صاحب جانتے تھے کہ ان دنوں یوں لوگوں کو گھر سے اٹھا کر عقوبت خانوں میں لے جانے والے رعایت نہیں کرتے جو کہتے ہیں، کر گزرتے ہیں چناں چہ پروفیسر صاحب نے کلمہ پڑھا اور انجام کے لیے تیار ہو گئے۔ اغوا کار ڈھاکا یونیورسٹی کے طالب علم ہی تھے۔ ان کا الزام تھا کہ پروفیسر صاحب فوج کے لیے سہولت کاری کرتے ہیں، لڑکوں اور اساتذہ کو فوج کے حوالے کرتے ہیں جن میں سے کئیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور لڑکیوں کی آبرو ریزی کی گئی۔ پروفیسر صاحب اپنے طلبہ کی طرف سے اتنی بے باکی سے یہ اذیت ناک اور الزامات سن کر سکتے میں آ گئے حالاں کہ حقیقت مختلف تھی۔ وہ بارہا ان نوجوانوں کو گرفتاری سے بچا چکے تھے جیسا کہ کوئی بھی مہربان استاد اپنے طلبا کے لیے کیا کرتا ہے۔

اغوا کاروں نے پہلے انھیں ان کی یونیورسٹی میں ہی بند کیا تھا۔ کچھ دیر بعد انھیں آگاہ کیا گیا کہ مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور ایک بار پھر ایک جیپ کے پچھلے حصے میں نشستوں کے درمیان نیچے بٹھا دیا گیا۔ اس دوران تیز دھار آلے سے ان کے سینے پر اور آس پاس زخم لگائے گئے۔ ان کی پشت پر بیٹھے اغوا کاروں نے یہی کام ان کی کمر اور جسم کے دیگر حصوں پر کیا۔ پروفیسر صاحب نے لکھا ہے کہ اس شب ان لوگوں نے ان کے جسم پر اتنے زخم لگائے کہ تکلیف کا احساس جاتا رہا اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ انہوں نے لکھا ہے:

‘ آنکھ کھلی تو صبح ہو چکی تھی اور میں ایک سڑک پر پڑا ہوا تھا۔ میرے زخمی ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ بس، اتنا یاد ہے کہ میں سسکیاں لے رہا تھا۔’

اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے مزید لکھا ہے کہ ان کی ٹانگیں بے جان تھیں اور جسم بھی ہلنے جلنے سے قاصر تھا۔ انھیں محسوس ہوا کہ جیسے انھیں شدید زخمی کر کے مرنے کے لیے پھینک دیا گیا ہے۔ روشنی بڑھنے پر لوگ جمع ہونے لگے۔ اسی دوران میں ان کے کان میں ایک آواز پڑی۔ ہجوم میں سے کسی نے کہا تھا:

‘ یہ ابھی مرا نہیں۔’

اس جملے نے جادو کا کام کیا، پروفیسر صاحب میں کچھ ہمت پیدا ہوئی اور انہوں نے کہا کہ ہاں، میں زندہ ہوں۔ مہربانی کر کے میرے ہاتھ پاؤں کھول دیے جائیں۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا پھر کسی نے پوچھا کہ حملہ آور کون تھے؟ پروفیسر صاحب نے بتایا:

‘ مکتی باہنی والے۔’

یہ اطلاع غضب ڈھا گئی۔ وہ لوگ جنہوں نے ازراہ ہمدردی ان کی تھوڑی بہت مدد کی تھی، خوفزدہ ہو کر آن کی آن میں غائب ہو گئے۔ اتنی دہشت اس زمانے کے مشرقی پاکستان میں ملتی باہنی کی تھی۔

یہ مکتی باہنی کیا تھی؟ ڈاکٹر جنید احمد نے اپنی کتاب’ بنگلہ دیش کی تخلیق: حقائق اور افسانے’ میں انکشاف کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے روابط 1960ء کے آس پاس بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ استوار ہوئے۔ 70 کی دہائی کی ابتدا میں صورت حال بدل گئی۔ بدلی ہوئی اس صورت حال کی بھارتی فوج کے ایک افسر آر کے یادیو نے اپنی کتاب ‘ Mission Raw’ میں بیان کیے ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ اندرا گاندھی نے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل مانک شا سے پوچھا کہ مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے انھیں کتنے وقت اور وسائل کی ضرورت ہوگی تو انھوں نے غیر معمولی وسائل اور چھ ماہ کی مدت طلب کی۔ اندرا کے نزدیک یہ وقت بہت زیادہ تھا چناں چہ آسانی کے لیے ایک تخریب کار تنظیم کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ یہ وہی تنظیم تھی جو مکتی باہنی کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ کوئی ایک تنظیم نہ تھی، کئی تنظیموں کا مجموعہ تھی جیسے مجیب باہنی، قادر باہنی اور بہت سی دیگر تنظیمیں۔ ان میں سے کوئی جاسوسی کا کام کرتی تھی، کوئی منصوبہ بندی اور کوئی تربیت۔  مشرقی پاکستان کی تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھنے والے پروفیسر سلیم منصور خالد کے مطابق یہ تنظیم صرف عوامی لیگ پر مشتمل نہ تھی بلکہ اس کی تشکیل میں چند دیگر عناصر بھی شامل تھے جن میں مولانا بھاشانی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی تھی جس نے بھارت میں متحرک نکسلائٹ کمیونسٹوں سے مسلح تربیت حاصل کی تھی۔ تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس بھی اس میں شامل ہو گئی جس کا اعتراف خود بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کر چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ وہ خود ذاتی حیثیت میں بھی مشرقی پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں شریک رہے ہیں۔ بغاوت کے پھیلنے کے بعد اس تنظیم میں مشرقی پاکستان پولیس اور ایسٹ بنگال رائفلز کے تربیت یافتہ بنگالی بھی شامل ہو گئے۔

یہی تنظیمیں تھیں جنھوں نے مشرقی پاکستان میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا جال بچھایا۔ اس کا نشانہ بننے والوں میں لاکھوں پاکستان کے حامی شامل تھے جن میں بنگالی، بہاری اور دیگر زبانیں بولنے والے تھے۔ پروفیسر سلیم منصور خالد مصدقہ حوالوں کے ساتھ بتاتے ہیں کہ مکتی باہنی کے ان مسلح جتھوں نے یکم مارچ 1971ء سے اسی سال اپریل مئی تک غیر بنگالیوں کی کھلے عام نسل کشی کی۔ اس عرصے میں مارے جانے والوں کی تعداد ڈیڑھ سے 2 لاکھ تک ہے۔

یہ ہے مشرقی پاکستان میں خونریزی کی اصل کہانی۔ اس کہانی کے کھلنے کے بعد ڈھاکا کے اخبار ڈیلی اسٹار کی خبر کا ذکر با معنی ہو جاتا ہے۔ اخبار نے لکھا ہے کہ نیدر لینڈ کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ ہرے وان بومیل (Harry van Bommel)ان دنوں بہت متحرک ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بقول 1971ء پاکستانی فوج نے جو کارروائیاں کی ہیں، اقوام متحدہ انھیں منظم نسل کشی قرار دے۔ اس مقصد کے لیے وہ بنگلہ دیش کا دورہ بھی کر رہے ہیں تاکہ وہ اس سلسلے میں شہادتیں جمع کر سکیں۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان میں فوج کے ہاتھوں کتنا جانی نقصان ہوا؟ اس سلسلے میں وہ کوئی اپنی علیحدہ اور آزادانہ تحقیق کرنے کے بجائے بنگلہ دیش کے سرکاری مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد 30 لاکھ تھی جب کہ دو سے تین لاکھ عورتوں کی آبرو ریزی کی گئی۔

نیدر لینڈ کے مسٹر ہرے کی سرگرمیاں اور پاکستان مخالف عزائم اپنی جگہ، وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، دیکھا جائے گا لیکن خونریزی کے ضمن میں بنگلا دیش حکومت اور ان کے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟ اس سلسلے میں سابق سفارت کار قطب الدین عزیز کی کتاب ‘ خون اور آنسؤوں کا دریا ‘ میں شامل اپنے مضمون میں پروفیسر سلیم منصور خالد نے دستاویزات کے ساتھ بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن نے  خونریزی کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے اپنے با اعتماد افسروں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا جس نے پورے مشرقی بنگال کا دورہ کر کے اعداد و شمار جمع کر کے شیخ مجیب کو ایک رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فوج کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد پچیس یاد زیادہ  سے زیادہ تیس ہزار ہے۔ اس  سے زائد ہرگز نہیں اور یہ بھی وہی لوگ تھے جنہوں نے ریاستی اور سرکاری تنصیبات پر حملے کیے، بھارتی فوج کی سہولت کاری کی اور غیر بنگالیوں کی نسل کشی کی۔ رپورٹ دیکھ کر مجیب برہم ہو گئے اور اسے اٹھا کر زمین پر دے مارا پھر کہا:

‘ میں کہا ہے، 30 لاکھ تو پھر 30 لاکھ ہی ہے ‘

بعد میں بنگلہ دیشی حکومت نے ہولو کاسٹ کے سلسلے میں اسرائیل اور بعض دیگر طاقتوں کی پیروی میں قانون سازی کر دی اور سرکاری طور پر بتائی گئی تعداد کو چیلنج کرنے یا متبادل حقائق پیش کرنے کو جرم قرار دے دیا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ 30 لاکھ کی تعداد کہاں سے آئی؟ پروفیسر سلیم منصور خالد کے مطابق مشرقی پاکستان میں آپریشن کے زمانے میں یہ تعداد سوویت یونین کے اخبار ‘ پراودا’ نے شائع کی تھی۔ اتنی بڑی تعداد کیسے ہوگئی،  سوویت اخبار نے اس سلسلے میں کوئی ثبوت ، دستاویزات یا شہادتیں پیش نہیں کیں۔

یہ امر توجہ طلب ہے نیدر لینڈ کے مسٹر ہرے نے پاکستان کو مطعون کرنے کے لیے بنگلا دیش حکومت کے مؤقف کو تو من و عن تسلیم کر لیا لیکن وہ آج کے بنگلا دیش کی صورت حال پر نگاہ ڈالنا بھول گئے۔

بنگلہ دیش کہنے کو ایک جمہوریت ہے لیکن 21 صدی میں بھی حیرت انگیز طور پر ایسا ملک ہے جہاں اختلاف کی اجازت نہیں۔ حسینہ واجد کی حکومت اس سلسلے میں اتنی شدت پسند ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے کسی موہوم اختلاف کی وجہ موبیل پرائز رکھنے والے ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر محمد یونس کو ملک چھوڑنا پڑا۔ ملک کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی  جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ اس کی سربراہ خالدہ ضیا اکثر و بیشتر جیل میں ہوتی ہیں۔

اپنے ملک کی سالمیت برقرار رکھنے کے لیے سیاسی عمل یا کسی دوسری سرگرمی میں  شریک ہونا جرم نہیں بلکہ حب الوطنی کا بنیادی تقاضا ہے۔ مشرقی پاکستان میں جن لوگوں نے علیحدگی کی مخالفت کی، وہ دنیا کے کسی بھی قانون کے تحت مجرم نہیں بلکہ محب وطن ہیں۔ ایسے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اختلاف رائے کے حامل قرار دیا جاتا ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کے خلاف دنیا بھر میں کوئی کارروائی نہیں کی جاتی لیکن بنگلادیش واحد ملک ہے جہاں شہریوں کے اس بنیادی حق کو کچل کر ملک کی یک جہتی کے حامیوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ ان میں بیشتر لوگوں کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا۔ ان لوگوں موت کی سزا دیتے ہوئے عالمی قوانین اور روایات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں معمر افراد کو موت کی سزا نہیں دی جاتی لیکن یہ صرف بنگلہ دیش ہی ہے جہاں 90 برس کے بوڑھوں کو بھی سولی پر چڑھا دیا گیا۔ مسٹر ہرے اور ان کے ساتھیوں نے بنگلہ دیش حکومت کے ان جرائم کو بھی نظر انداز کر دیا۔

مسٹر ہرے نے بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹوں کو بھی نظر انداز کر دیا جن میں بتایا گیا ہے کہ اس ملک میں سرکاری اداروں کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ انسداد دہشت گردی کے نام پر بنائی گئی ایک فورس کے اہلکار لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر تشدد کے بعد قتل کر دیتے ہیں۔

حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے سے قبل ملک میں آزادی صحافت کا درجہ عالمی ریٹنگ میں ایک سو بیس تھا جو اب بڑھ کر ایک سو باسٹھ ہو گیا ہے جب کہ ڈیجیٹل میڈیا کو کنٹرول کرنے والا ادارہ قائم کرنے کے بعد  آزادی سے کچھ کہنا تو کیا سوچنا بھی ممکن نہیں رہا۔

بنگلہ دیش کی شدت پسند حکومت کی ایما پر پاکستان کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف لوگوں کی نگاہ میں کیا حسینہ واجد حکومت کے یہ جرائم بھی آئیں گے اور تاریخ کی وہ سچائیاں بھی جن پر نہایت چالاکی سے پردہ ڈال کر دنیا گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فاروق عادل ادیب کا دل لے کر پیدا ہوئے، صحافت نے روزگار فراہم کیا۔ ان کی گفتگو اور تجزیہ دونوں روایت سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

بھارتی کرکٹ بورڈ نے ٹی20 ورلڈ کپ کی چیمپیئن ٹیم کے لیے کتنی رقم کا اعلان کیا، سن کر آپ بھی حیران رہ جائیں گے

آئندہ انتخابات 2029 میں مقررہ وقت پر ہوں گے، وزیر اطلاعات کا فضل الرحمان کی پریس کانفرنس پر ردِعمل

مرحوم امریکی صدر تھیوڈور روزویلٹ کی 1987 میں چوری ہونے والی گھڑی کی دلچسپ کہانی

ناسا کے جونو مشن نے مشتری پر لاوا جھیلیں دریافت کر لیں

ملک میں فوری نئے انتخابات کرائے جائیں، اس بات کی ضمانت ہو کہ اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کرے گی، فضل الرحمان

ویڈیو

موجودہ قیادت پرویز الٰہی اور شاہ محمود سے خائف ہے، نہیں چاہتے کہ شاہ محمود جیل سے باہر آئیں، فواد چوہدری

سب سے زیادہ دھاندلی خیبر پختونخوا میں ہوئی ہے، ایڈووکیٹ مہر سلطانہ

گلوکار و اداکار گوہر ممتاز نے پہلی محبت پر خاموشی توڑ دی

کالم / تجزیہ

علی بیگ کا چمن اور میٹا مورفسس

ٹی20 ورلڈ کپ فائنل، انڈیا کو مبارکباد دوں یا جنوبی افریقہ کو صلواتیں سناؤں؟

تحریک انصاف کی قیادت بحرانی کیفیت کا شکار