جب عمران خان اقتدار میں تھے تو پی ڈی ایم کا سب سے بڑا مطالبہ تھا کہ حکومت وقت فی الفور الیکشن کروائے تاکہ ملک اس بحرانی کیفیت سے نکل سکے۔ عمران خان نے اس مطالبے کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جب تک، وہ اقتدار سے نکالے نہیں گئے۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد عمران خان کا سب سے بڑا مطالبہ فوری الیکشن ہوگیا مگر اب شہباز شریف انتخابات سے کنی کترانے لگی۔
حکومت کے بقول انہیں عمران خان کے پھیلائے ہوئے گند کو صاف کرنے کے لیے وقت چاہیے۔ آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کے لیے مہلت درکار ہے، عوام کو سہولت دینے کے لیے کچھ اضافی وقت چاہیے۔ یہی بات سنتے سنتے قریبا 2 سال ہونے کو آئے ہیں۔ نہ عمران خان اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹے نہ حکومت نے انتخابات کی جانب پیش رفت کی۔
پہلے سرکاری پریس کانفرنسز میں سنا گیا کہ انتخابات مقرررہ وقت پر ہی ہوں گے، یعنی اکتوبر میں۔ اب ایسی آوازیں بھی آنا شروع ہو گئی ہیں کہ انتخابات شاید مارچ 2024 تک موخر کر دیئے جائیں۔ صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن نے بھی حال ہی میں اس بات کو موضوع بنایا۔ جس سے حکومت کے ارادوں کا عندیہ ملتا ہے انتخابات کی منزل ابھی دور ہے۔
یہ سب جانتے ہیں کہ 9 مئی سے پہلے کا پاکستان 9 مئی کے بعد کے پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ 9 مئی سے پہلے اس سماج میں عمران خان کا طوطی بولتا تھا۔ وہ جو چاہتے کر لیتے، جس کی چاہے پگڑی اچھال لیتے، اسٹیبلشمنٹ کی عزت کو مزے سے پاؤں تلے روند دیتے، سیاستدانوں کی کردار کشی کرتے۔
انہیں زعم تھا کہ ان کی عوامی مقبولیت اتنی زیادہ ہے کہ فوری الیکشن ہو جائیں تو دو تہائی اکثریت حاصل کریں گے اور دشمنوں کو ناکوں چنے چبوا دیں گے، جی بھر کر ان سے انتقام لیں گے۔
خان صاحب سمجھتے تھے کہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو گالیاں نکال نکال کر اپنے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں، صحافیوں کے بھیس میں چھپےانصافیوں کی مدد سے ان کی نیا پار چڑھ سکتی ہے۔ عدلیہ میں بیٹھے تحریک انصاف کے کارکنوں کی مدد سے میچ جیتا جا سکتا ہے، ہر روز انتشار اور لانگ مارچ کا اعلان کرکے فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس زعم میں خان صاحب نے 9 مئی کے اقدامات کو عملی شکل پہنانے کی کوشش کی۔ اگرچہ ان کی منصوبہ بندی بہت پہلے ہو چکی تھی مگر ایکشن کا موقع 9 مئی کو آیا۔
جو کچھ 9 مئی کو ہوا وہ لمحہ لمحہ سارے پاکستان کو یاد ہے۔ اس سے ملک کی ساکھ کو، فوج کے امیج کو اور شہدا کی حرمت کو کتنا نقصان پہنچا یہ الگ بات ہے لیکن سچ یہ ہے کہ 9 مئی کے بعد اس ملک اوراس کی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا۔ جب ہنگامے، توڑ پھوڑ اور لوٹ مار تھمی تو سب کو ادراک ہوا کہ ایک متشدد شخص نے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا۔ عمران خان جس عوامی ردعمل کی توقع کر رہے تھے ہوا اس سے بالکل مختلف۔ عمران خان سمجھ رہے تھے کہ انتشاریوں کی قیادت کرتے اچانک مسند اقتدار پر بیٹھ جائیں گے۔ خزانے کی کنجی بھی ان کے پاس ہو گی اور داروغہ جیل بھی ان کا مطیع ہو گا۔
خان صاحب کے لیے مسئلہ نہ ادارے کے رد عمل کا ہے نہ پی ڈی ایم کی رائے کا۔ اصل بات عوامی رد عمل کی ہے۔ 9 مئی کے بعد شاید پہلی دفعہ عمران خان کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے حق میں بلند ہونے والی آوازوں کے حلق خشک ہو گئے۔ سوشل میڈیا پر اس تباہی کے بعد سناٹا چھا گیا۔ پارٹی کے لوگ ایک ایک کرکے پریس کانفرنس کرنے لگے۔ چند دنوں میں اس ہائی برڈ نظام کا شیرازہ بکھر گیا جس کی تشکیل میں 22سال لگے تھے۔ عمران خان کی سیاست اچانک دم توڑ گئی۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ کی قیمت اتنی ارزاں ہوئی کہ اس سے سستی صرف خاموشی ہوتی ہے۔
اب پورے ملک میں تحریک انصاف کے امیدوار خان کی حمایت سے منکر ہیں، کوئی شخص پارٹی کا جھنڈا اپنی گاڑی پر نہیں لگانا چاہتا، کوئی عمران خان کے حق میں نعرہ نہیں لگانا چاہتا۔ جو اب بھی عمران خان کے ساتھ ہیں، ان کی آواز کی گرج چمک ختم ہو گئی اور خان کی حمایت اب صرف سرگوشیوں ہی میں ہو رہی ہے۔
ایسے میں جب عمران خان کی سیاست دم توڑ چکی ہے، حکومت وقت کو کوئی سیاسی چیلنج درپیش نہیں ہے حتی کہ اپوزیشن لیڈر کی کرسی پر اب راجہ ریاض متمکن ہیں۔ ایسے میں حکومت کا الیکشن سے گریز سمجھ سے بالاتر ہے۔
اگر یہ سمجھا جائے کہ معییشت کو درست کرنے کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے تو یہ دلیل کچھ ایسی اچھی نہیں۔ اگر یہ استدلال مان لیا گیا تو ہر حکومت کے پاس جواز ہو گا کہ وہ الیکشن سے منکر ہو جائے کیونکہ حالات اچھے نہیں ہیں۔ اس کا فائدہ آنے والے وقتوں میں کوئی آمر بھی لے اٹھا سکتا ہے۔
حکومتوں کو ایک معینہ مدت میں اپنی کارکردگی سے عوام کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ اس معینہ مدت کے بعد آپ مزید مدت کی خواستگار نہیں ہو سکتے۔ یہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔ اکتوبر اب کچھ زیادہ دور نہیں۔ حکومت کو اب الیکشن کی جانب بڑھنا چاہیے۔ مزید تاخیر ایک نئے آئینی بحران کو جنم لے گی جو موجودہ معاشی بحران سے زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
عمران خان نے اس سماج میں بہت تباہی مچائی۔ اس تباہی سے نمٹنے کا طریقہ الیکشن ہے، الیکشن سے اجتناب نہیں۔ حالات بتا رہے ہیں کہ حکومت مارچ تک الیکشن ملتوی کرنا چاہتی ہے تاکہ عوام کو کچھ کارکردگی دکھا سکے لیکن معاشی اعشاریے بتا رہے ہیں کہ شہباز حکومت 10سال بھی لگی رہے تو معیشت بہتر ہونے والی نہیں۔ اس موقع پر بجائے اجتناب کے عوام کا سامنا کرنا ہی درست رویہ ہے۔ یہی جمہوریت ریت روایت ہے، یہی آئین کا تقاضا ہے اور یہی اس وقت کا منشا ہے۔
یاد رکھیں کہ موجودہ حالات میں جب تک الیکشن کا چاند نظر نہیں آئے گا تب تک جمہوریت کا سورج طلوع نہیں ہو گا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔