جی ایچ کیو سے رد الفساد تک

جمعرات 8 جون 2023
author image

عرفان بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یہ 10 اکتوبر2009 کی ایک عام سی دوپہر تھی۔ راولپنڈی کے انتہائی حساس علاقے صدر میں لوگ اپنے معمول کے کاموں میں مشغول تھے کہ اچانک دھماکوں اور گولیوں کی آواز سنائی دی۔ دہشت گردوں نے داخلی دروازے کی طرف وین چلا کر جی ایچ کیو میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کی۔ داخلی دروازے پر ڈیوٹی پر موجود سیکیورٹی اہلکاروں نے شدید مزاحمت کی مگر دہشت گرد ایک کمپاؤنڈ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد دہشت گردوں نے 11 فوجیوں سمیت 42 لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔ ان یرغمالیوں کے بدلے انہوں نے کئی ہائی پروفائل دہشت گردوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جو پاکستانی فوج کی حراست میں تھے۔

پاک فوج نے فوری کارروائی کرتے ہوئے جوابی حملہ کیا جس میں ہیلی کاپٹر اور خصوصی دستے شامل تھے۔ یہ آپریشن کئی گھنٹوں تک جاری رہا اور اس میں شدید فائرنگ اور دھماکے شامل تھے۔ دہشت گردوں کی کوششوں کے باوجود پاک فوج نے وین کو گھیرے میں لے لیا اور عسکریت پسندوں کو فرار ہونے کا موقع نہیں دیا۔ آپریشن کے نتیجے میں 4 عسکریت پسند ہلاک اور 6 دیگر کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ پاکستان میں دہشت گردی کی 20 سالہ تاریخ کا سب سے خطرناک حملہ تھا جس نے پوری حکومتی و عسکری قیادت کو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے پر مجبور کر دیا۔

اس حملے کے بعد پاکستان آرمی نے جنوبی وزیرستان میں جون 2009 سے جاری آپریشن ’راہ نجات‘ کا دائرہ کار بڑھا کر اسے پورے سوات تک پھیلا دیا اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ’ٹی ٹی پی‘ کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ اس آپریشن کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس آپریشن سے متاثرین کی بحالی 2020 تک جاری رہی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت کے مطابق جنوبی وزیرستان میں آپریشن ’راہ نجات‘ کے دوران اب تک 87 ہزار 132 تباہ شدہ مکانات کا سروے کیا گیا جن میں سے 33 ہزار 381 تباہ شدہ مکانات کے مالکان میں 12 ارب روپے سے زائد کی رقم تقسیم کی گئی۔

آپریشن کااختتام ہوا تو وہی روایتی اعلان ہوا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ اب پاکستان میں دہشت گردی کی واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود 2010 میں ایک اندازے کے مطابق مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں 7 ہزار 435 پاکستانی مارے گئے۔ جبکہ فنانس ڈویژن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت نے 2009 سے 2011 تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2 ہزار664 ارب روپے کا نقصان اٹھایا۔

دہشت گردوں کو ختم کرنے کے دعوے کے باوجود ٹی ٹی پی سے مذاکرات بھی جاری رہے جو کہ ایک متضاد صورتحال نظر آ تی ہے۔ 2011 کے آخر میں ٹی ٹی پی کمانڈر مولوی فقیر محمد نے حکومت پاکستان سے بات چیت کی تصدیق کی، اس کے علاوہ 2013 میں نواز شریف نے بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی بات کی۔

تمام تر کوششوں کے باوجود ملک میں امن و امان کی صورتحال بد سے بدترین ہوتی گئی۔ جنوری 2014 کے آخر میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں بڑھتے ہوئے خودکش حملوں کے بعد ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک بار پھر پہل کرتے ہوئے کہا کہ حکومت امن کے لیے عسکریت پسندوں کو مذاکرات کا ایک اور موقع دینا چاہتی ہے۔ جبکہ حکومت اور ٹی ٹی پی کی طرف سے نامزد کردہ ٹیم کے درمیان پہلی باضابطہ ملاقات فروری میں اسلام آباد میں ہو چکی تھی۔

مذاکرات میں حکومتی ٹیم میں وزیراعظم کے مشیرعرفان صدیقی، تجربہ کار صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، سفارت کار رستم شاہ مہمند اور انٹر سروسز انٹیلی جنس سے ریٹائرڈ میجر عامر شاہ شامل تھے۔ ٹی ٹی پی کی نمائندگی مولانا سمیع الحق، لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز اور جماعت اسلامی کے رہنما ابراہیم خان نے کی۔ ٹی ٹی پی نے مذاکرات کے لیے دو شرائط رکھی تھیں ایک فاٹا میں امن زون کا قیام جہاں عسکریت پسند آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں اور دوسرا ان کے اہم جنگجوؤں کی رہائی۔ جذبہ خیر سگالی کے طور پر حکومت نے جیل سے 12 لو پروفائل دہشت گردوں کو آزاد بھی کیا مگر ان مذاکرات میں کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو سکی۔ حالات مزید خراب ہوئے تو پاکستان آرمی کی طرف سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا۔

آپریشن ضرب عضب ایک بڑا فوجی آپریشن تھا جسے پاکستانی فوج نے جون 2014 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شروع کیا تھا تاکہ علاقے میں دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو ختم کیا جا سکے۔ یہ آپریشن 2 سال سے زیادہ عرصہ جاری رہا، سرکاری طور پر یہ آپریشن اپریل 2016 میں ختم ہوا۔ اس آپریشن میں 30 ہزار سے زائد پاکستانی فوجی شامل تھے۔ پاک فوج کے مطابق آپریشن میں 3500 سے زائد عسکریت پسند مارے گئے، جب کہ 488 فوجی جوانوں کو شہادت نصیب ہوئی۔ اس آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان اور آس پاس کے علاقوں سے 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ آپریشن کے دوران بے گھر ہونے والے افراد کو حکومت کی طرف سے عارضی پناہ گاہیں اور دیگر سہولیات فراہم کی گئیں۔

پاک فوج نے علاقے میں دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے، تربیتی کیمپ اور گولہ بارود کے ڈپو تباہ کیے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق آپریشن کے دوران مجموعی طور پر 3ہزار 682 افراد مارے گئے جن میں 488 عام شہری، 2,757 عسکریت پسند اور 437 سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔ تاہم کچھ اندازوں کے مطابق عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد  ایک ہزار سے زائد ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ شہری ہلاکتوں کے بارے میں کوئی سرکاری یا حتمی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں اور اس طرح کے جنگ زدہ علاقے میں درست اعداد و شمار جمع کرنے میں دشواری کی وجہ سے اصل تعداد کبھی معلوم نہیں ہو سکتی۔

اقوام متحدہ (یو این ایچ سی آر) کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں شمالی وزیرستان سمیت پاکستان کے قبائلی علاقوں سے 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ضرب عضب پر تقریباً 190 ارب روپے خرچ ہوئے۔

مجموعی طور پر آپریشن ضرب عضب حالیہ برسوں میں پاکستانی فوج کی طرف سے کیے جانے والے اہم ترین فوجی آپریشنز میں سے ایک تھا۔ اس کا مقصد شمالی وزیرستان میں دہشت گرد گروہوں اور ان کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنا تھا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں عسکریت پسندوں کی ہلاکت اور دہشت گردوں کے کئی ٹھکانوں اور تربیتی کیمپوں کو تباہ کر دیا گیا۔ تاہم علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کے بے گھر ہونے کے نقصان کا ازالہ ابھی تک نہ ہو سکا۔ لاکھوں بے گھر افراد میں سے بہت سے پڑوسی صوبوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان چلے گئے جبکہ کچھ نے افغانستان میں پناہ لی۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی نقل مکانی نے اہم انسانی مسائل پیدا کیے، جن میں رہائش، خوراک، اور صحت شامل تھے۔ ان مسائل کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے بے گھری اور اپنوں کی موت کا دکھ جھیلا ہو۔

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں جب دہشت گردوں کے لیے سوات اور وزیرستان میں رہنا مشکل ہوا تو انہوں نے ملک کے دوسرے شہروں کی طرف نکلنا شروع کیا۔ اکثریت دہشت گردوں نے روپ بدل کر بلوچستان، جنوبی پنجاب، سندھ اور پنجاب میں جا کر پناہ لی جس کے نتیجے میں دہشت گرد پورے ملک میں پھیل گئے۔ اس کے بعد فوج نے دہشت گردوں کا سوات اور وزیرستان سے نکل کر پورے پاکستان میں پیچھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں 2017 میں ایک اور آپریشن شروع کیا گیا جس کو ’رد الفساد‘ کا نام دیا گیا۔ اس آپریشن کا دائرہ کار سوات اور وزیرستان سے سے بڑھا کر پورے ملک تک پھیلا دیا گیا۔ سرحد پار سے عسکریت پسندوں کے حملوں کو روکنے کے لیے پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانا اس آپریشن کے بنیادی مقاصد میں سے ایک تھا۔ آپریشن میں ملک گیر تخفیف اسلحہ اور دھماکا خیز مواد کو کنٹرول کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی تاکہ پاکستان مخالف گروہوں کی اسلحہ اور گولہ بارود تک رسائی کو محدود کیا جا سکے۔ فروری 2022 میں آئی ایس پی آر کی ایک ٹوئٹ کے مطابق اس آپریشن کو 5 سال ہو چکے ہیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈی کی ایک رپورٹ کے مطابق 2009 سے 2018 تک دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 17 ہزار 513 سویلینز اورپاکستانی فورسز کے 5 ہزار 796 اہلکار شہید ہوئے جبکہ اس دوران 27 ہزار 662 دہشت گرد ہلاک ہوئے اور ان آپریشنز پر تقریباً 90 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ اس کے علاوہ انٹرنیشنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر کی رپورٹ کی مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 2014 سے لے کر 2021 تک ملک میں تقریباً 28 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں۔ ستمبر 2021 میں پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے پاکستان کو 126 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطاق پاکستان ہر سال اپنی جی ڈی پی کا تقریباً 3 فیصد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کرتا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف 126 ارب ڈالر خرچ کرنے والا ملک آج ایک، ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے آگے جھولی پھیلائے کھڑا ہے۔ اربوں ڈالرز کے نقصان، ہزاروں بے گناہ شہریوں کی قربانی اور لاکھوں افراد کو بے گھر کرنے کے بعد بھی ملک میں امن امان کی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ ان تمام شواہد کے بعد ایک بات تو طے ہے کہ جب تک دہشت گردی پر مکمل قابو نہیں پایا جاتا تب تک اس ملک کے حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ اب وقت ہے ہمیں دہشت گردی کے خلاف ایک واضح مؤقف اپنانا چاہیے اور جنگ کے ساتھ دیگر ذرائع کو بھی استعمال میں لانا ہوگا ۔جن میں ایک اچھا قدم ’پیغام پاکستان‘ کی تحریک کا تھا جس پر دوٹوک انداز میں عمل کی ضروت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp