کندھا برائے بندوق پارٹی

جمعرات 8 جون 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

فارمیشن کمانڈرز کا اعلامیہ پڑھا تو حیرت ہرگز نہیں ہوئی البتہ ہمدردی کے اس جذبے میں مزید شدت آئی جس نے  9 مئی کے بعد قومی سطح پر جنم لیا تھا۔

جب احساس ذمہ داری سے بیگانہ اور شعور سے بے بہرہ ہجوم نے خلاف توقع (اب کی بار) اس منطقے کا بھی رخ کیا جہاں سے ایک خود سر شخص کی پیٹھ بھی تھپتھپائی جاتی رہی اور  لاڈ پن کی انتہا پر بھی  پہنچایا گیا۔

موجودہ صورتحال میں فوج کے ساتھ ہمدردی اور اس کے ساتھ پیش آئے واقعات پر دکھ یقینا ہر پاکستانی کو ہے لیکن تاریخ کے دھارے کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ ھر بندوق کو کندھا فراہم کرنے والے اس غول نے جنم کیسے لیا اور وہ دماغ کی بجائے ہمیشہ اپنے ان کندھوں سے کام کیوں لیتے رہے۔ جو کندہے ایک مکار سیاست دان کے ہاتھوں حال ہی میں ریاستی اداروں کے خلاف بھی استعمال ہوئے۔

وہ کندھا برائے بندوق پارٹی اور اس کا کردار یہی رہا جس کا ذکر کرنے لگا ہوں اور جس کے  ہاتھوں پہلے سیاست جمہوریت اور معیشت برباد ہوئے اور اب ریاستی اداروں کو اپنے نشانے پر رکھا۔

سچ تو یہ ہے کہ ذمہ داری کے احساس اور عقل و خرد سے بے بہرہ اس ہجوم کی بقا اور پرورش میں ریاست ایسٹبلشمنٹ سیاسی جماعتوں اور میڈیا نے بھی انتہائی نامناسب اور منفی کردار ادا کیا جس کا خمیازہ اب سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ذرا تاریخ میں جھانک کر اس کندھا برائے بندوق پارٹی کے ’جرائم ‘ تو دیکھیں۔ جمہوریت کو کبھی استحکام نہیں ملا۔ معیشت اٹھان سے محروم رہی آئین و قانون کو بالا دستی نصیب نہیں ہوئی امن و امان کی صورتحال میں بہتری نہیں آئی کرپشن اور اقربا پروری قابو نہیں آئی اور میرٹ پروان نہیں چڑھی۔

  اگر سوال پوچھا گیا کہ درجہ بندی کے حوالے سے ان جرائم کی سب سے بڑی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے تو میں ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اس ہجوم کی طرف اشارہ کروں گا جن کے کاندہے ھر دور میں دوسروں کی بندوق یا سواری کے لئے ہمیشہ دستیاب رہے۔ گویا تمام جرائم نے کندھا برائے بندوق پارٹی ہی سے طاقت پائی۔

یہی وہ منتشر لیکن حد درجہ تباہ کن جاہلیت ہی ہے جس نے اس ملک کی تباہی اور بربادی میں نہ صرف سب سے بڑا کردار ادا کیا بلکہ جب بھی یہ بدنصیب ملک آگے کی طرف بڑھنے لگا تو اس کا راستہ کاٹنے اور اسے منہ کے بل گرانے میں اسی کندھا برائے بندوق پارٹی کی جاہلیت ہی  نے سب سے زیادہ بلکہ تباہ کن حصہ ڈالا۔

یہ ایک ایسی ’پارٹی‘ ہے جس کا نہ کوئی انتخابی نشان ہے نہ جماعتی منشور نہ ہی کوئی پارٹی لیڈر اور نہ کوئی باقاعدہ تنظیم لیکن سیاستدانوں فوجی ڈکٹیٹروں اور سول انتظامیہ کی نسبت اس ’پارٹی‘ کے جرائم انتہائی خوفناک ہیں کیوں کہ ہر اندرونی و بیرونی سازشی منصوبوں خطرناک عزائم اور تباہی و بربادی پر مبنی  کارروائیوں کو ہمیشہ اسی کندھا برائے بندوق  پارٹی نے مدد اور سہارا فراہم کیا۔

اس ملک کے ہر محسن کو جب بھی راستے سے ہٹانے کا معاملہ درپیش ہوا تو غدار کافر کرپٹ اور ایجنٹ کا جھوٹا لیکن کراہت بھرا بیانیہ اسی جاہلیت کے بے شعور اور بے لگام غول کے ذریعے ہی آگے بڑھایا گیا۔

قائد اعظم کو کافر اعظم کہا گیا تو حقائق سے بے خبر جاہلیت پارٹی تب بھی اسی نعرے کی گردان کرتی رہی۔ خواجہ ناظم الدین فیروز خان نون اور حسین شہید سہروردی جیسے عظیم رہنماؤں کی قربانیوں کو خاکستر کرنے کے لئے اسی جہالت کے ’ایندھن‘ سے کام لیا گیا۔

مادر ملت فاطمہ جناح تاریخ کے پہلے  ڈکٹیٹر ایوب خان کے مقابل جمہوری اور سیاسی قوتوں کو لیڈ کرتے ہوئے جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کی جدوجہد میں سامنے آئیں تو غدار ایجنٹ اور بد کردار کی گولہ باری کرنے والی بندوقوں کو کندہے فراہم کرنے والی بھی یہی جاہلیت تھی۔

منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایجی ٹیشن سے پھانسی تک اسی جذباتی جاہلیت نے معاملات کو سمجہے بغیر فوری طور پر  اپنی ’خدمات‘ اور  ’کندھے‘ پیش کیے اور اگلے 10 سال کےلیے جنرل ضیاء الحق کی بد نام زمانہ مارشل لا کا راستہ ہموار کیا۔

بے نظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک پیش کا منصوبہ بنایا گیا تو کونوں کھدروں سے اسی جاہلیت کو دوبارہ جھاڑ پونچھ کر نکالا گیا اور ان میں جذبات کی ہوا بھر دی گئی۔

نواز شریف اپنے طویل سیاسی سفر اور تجربے کے حصول کے بعد جمہوریت اور آئین و قانون کی بالادستی کے راستے پر نکل پڑے تو مدتوں سے بیکار اور ڈمپ کیے ہوئے جاہلیت کو پرانے نعروں کافر  غدار لا دین اور سیکورٹی رسک کے ساتھ ساتھ ایک نئے  نعرے یعنی چور ڈاکو کے ساتھ سامنے لایا گیا جو ایک خوفناک تبدیلی اور پہاڑ جیسے حقائق کے باوجود بھی اس سے منحرف ہوئے کو تیار نہیں۔

چوں کہ اس جاہلیت پارٹی کا شعور سمجھ بوجھ حقائق کا ادراک زمانے کی تبدیلی آمرانہ ہتھکنڈوں میڈیا ٹرائل کی ڈرامہ بازی اسٹیبلشمنٹ کی چالبازیوں ملکی مفاد عوام کی سود و زیاں میں تفریق کرنے اور سیاسی حرکات کو سمجھنے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا بلکہ اپنے نقصان اور غیروں کے فائدے کے لیے ایک احمقانہ جذباتیت کے ساتھ استعمال ہونا ہی ان کی جبلت ہے اسی لئے ان کی سمت بلکہ بے راہ روی کا تعین بھی وہی قوتیں کرتی ہیں جو اس جاہلیت کو زندہ رکھنے کے لیے مخصوص حالات اور فضائیں تخلیق کر کے اسی کے بطن سے نئی جاہلیت کو نہ صرف پروان چڑھاتے ہیں بلکہ نیا نعرہ بھی ان کے دماغوں اور منہ میں ٹھونس دیتے ہیں جنہیں یہ بلا سوچے سمجھے دہراتے رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر گزشتہ ایک عشرے سے چور ڈاکو کے نعرے پر لگائے گئے اس غول کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ پرویز مشرف اس ملک کا واحد آدمی ہے جسے اعلی عدالت نے نہ صرف غدار ڈکلیئر کیا بلکہ اسے گھسیٹ کر لانے اور پھانسی دینے کا حکم بھی دیا لیکن اس عدالت اور اس عدالتی فیصلے کا کیا بنا؟ اور کیوں بنا؟

کندھا برائے بندوق  پارٹی کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ ترقی کی راہ پر گامزن ملک کا بیڑہ کس نے اور کن مقاصد کے لیے غرق کیا؟

ملک ریاض سے شہزاد اکبر فرح گوگی  سے زلفی بخاری اور مونس الہی  سے عامر کیانی تک جیسے لوگوں سے اس ملک کو کیا نقصان پہنچا اور ان کا اصل ٹھکانہ کہاں ہونا چاہیے؟

اس غول کے لیے یہ بات نہ تو قابل غور ہے اور نہ ہی قابل تشویش کہ اس ملک میں قانون سب کے لئے یکساں کیوں نہیں؟

کسی آمر نے کبھی جیل کا پھاٹک تک نہیں دیکھا (عدالتی احکامات کے باوجود بھی ) جبکہ مقبول سیاستدانوں حتی کہ منتخب وزرائے اعظم تک جیلوں کال کوٹھڑیوں پھانسیوں اور گولیوں کا نشانہ کیوں بنتے رہے ہیں۔

کندھا برائے بندوق  پارٹی کے لیے یہ بات بر گز اہم نہیں کہ کشمیر کا سودا کس نے کیا اور مظلوم کشمیری سفاک ہندوستانی سپاہ کی رحم و کرم پر کس نے اور کن مقاصد کے لئے تنہا چھوڑے۔ تباہی سے دوچار معیشت خوفناک مہنگائی پٹرول چینی گھی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ بھی اس پارٹی کا درد سر نہیں۔ یہ بھی درد سر نہیں کہ طاہر القادری سے تحریک لبیک تک کہاں سے اور کیسے نمودار ہوتے ہیں اور تو اور کندھا برائے بندوق پارٹی کو اس سے کیا سروکار کہ 9 مئی کا واقعہ کیوں ہوا ؟

دشمنوں کی کارستانیوں کے ڈانڈے کہاں کہاں سے ملتے ہیں، اس کے مقاصد کیا تھے اور اصل منصوبہ ساز کون تھے؟

کندھا برائے بندوق پارٹی کی ’ذمہ داری‘ تو فقط غل غپاڑہ کرنے آگ لگانے فساد پھیلانے اور جذباتی ردعمل دکھانے تک ہی ہے سو وہ وہی کر بیٹھے جو ان کی ’تاریخ‘ ہے۔

کندھا برائے بندوق  پارٹی کے پاس یہ بات سوچنے کے لیے نہ تو دماغ ہے اور نہ ہی وقت کہ 70 سال گزرنے کے بعد بھی یہ ملک مسلسل نازک دور سے کیوں گزر رہا ہے۔ نہ یہاں جمہوریت پنپ رہی ہے، نہ آئین و قانون کی بالادستی قائم ہو رہی ہے اور نہ ہی کرپشن رک رہی ہے۔

اس غول کو نہ تو میڈیا کی آزادی سے دلچسپی ہے اور نہ ہی حق و صداقت پر مبنی صحافت سے علم و شعور مطالعہ اور با خبری کی بجائے بہتان طرازی الزامات اور گالم گلوچ ہی اس طبقے کا اولین ترجیح بھی ہے اور سیاسی بیانیہ بھی!

وقت کے ساتھ ساتھ کندھا برائے بندوق پارٹی نے ’ترقی‘ کرتے ہوئے اپنے بیانیے میں زمانے کی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ اضافہ بھی کیا۔ میڈیا کی آزادی بھی ترجیح ٹھہری  بشرطیکہ ان کی خواہش مطابق بات کریں۔ پھر بے شک آپ کی کرپشن اور ٹاوٹ صحافت سے بنائے گئے فارم ہاؤسز لگژری لائف سٹائل لمبی لمبی گاڑیاں حتی کہ ذاتی جہاز بھی خون پسینے کی کمائی مانے جائیں گے لیکن اگر کوئی صحافی ان کی خواہش کے برعکس یا با الفاظ دیگر مبنی بر حقیقت بات کرے تو لفافہ کرپٹ اور بکاؤ کے علاوہ ماں بہن کی گالیوں سے بھی تواضع کی جائےگی۔

کندھا برائے بندوق پارٹی نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے ’منشور‘ میں تبدیلیاں کرتے ہوئے اسے نہ صرف ’مزید بہتر‘ بنایا بلکہ یہ ’ہدایات‘ بھی جاری کیں کہ القادر ٹرسٹ، توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، بنی گالہ، ہیرے جواہرات، ملک ریاض، ابراج گروپ کے ساتھ ساتھ کورونا فنڈ کرپشن، میڈیسن گھپلے، چینی اسکینڈل، پشاور بی آر ٹی، مالم جبہ، پنڈی رنگ روڈ اسکینڈل  کے ساتھ ساتھ بشریٰ مانیکا، فرح گوگی، علیمہ خان، شہزاد اکبر، زلفی بخاری،  خسرو بختیار، رزاق داود اور علی زیدی  کے معاملات پر مٹی پاؤ اور صرف نواز شریف اور دوسرے سیاستدانوں کو چور ڈاکو کہتے رہو۔

چونکہ پرانا کندھا برائے بندوق پارٹی کے نئے نسل کی  ذہنی تخلیق جدید تکنیک کے ذریعے الیکٹرک اور سوشل میڈیا پر ان میڈیائی ٹاؤٹس نے کی جنہیں مخصوص ایجنڈے دے کر میڈیا پر بٹھایا گیا تا کہ کندھا برائے بندوق پارٹی کی روایتی  جاہلیت نئے تقاضوں کے مطابق پھلے پھولے اور پھر ایسا ہوا بھی۔ لیکن المیہ ملاحظہ ہو کہ سیاسی جمہوری آئینی اور معاشی تباہی کے بعد اس سے وہ تباہی بھی برآمد ہوئی جس کا تصور بھی رونگھٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ یعنی 9 مئی کی تباہی!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp