آئی ایم ایف ڈیل کے بغیر کیا حکومت عوام کو بجٹ میں ریلیف دے سکتی ہے؟

جمعرات 8 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کی معاشی حالت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اس کا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جلد از جلد معاہدہ ضروری ہے تاکہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ سکے۔

آئی ایم ایف سے معاہدہ گزشتہ کئی ماہ سے تاخیر کا شکار ہے مگر وزیراعظم شہباز شریف اس بار کافی پرامید ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ترک میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے نویں جائزے کی تمام شرائط  مکمل کرلی ہیں اور توقع ہے کہ رواں ماہ اچھی خبر سننے کو ملے گی۔

یکم جون کو آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے میں تاخیر پر قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا تھا کہ ’آئی ایم سے معاہدہ تاخیر کا شکار اس لیے ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کے مطابق ہم اپنے وعدوں سے پھر جاتے ہیں اور یہ سب پچھلی حکومت کی وجہ سے ہے‘۔

واضح رہے کہ پاکستان نے آئندہ بجٹ کی تیاری آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق کی ہے اور وہ بجٹ آئی ایم کے ساتھ شیئر بھی کرچکا ہے مگر اس کے باوجود بھی آئی ایم ایف کی جانب سے کوئی خاص پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے۔

حکومت کی جانب سے آئندہ بجٹ کو عوام دوست بجٹ کا نام دیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ عوام کو بجٹ میں بڑا ریلیف دیا جائے گا۔

مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجٹ میں عوام کو بڑا ریلیف دے دیا جائے اور آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول ایگریمنٹ بھی نہ ہوسکے تو کیا اس صورت میں حکومت ریلیف پر یوٹرن لے گی؟

ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت اس قابل نہیں ہے کہ حکومت آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ بھی کوئی ریلیف دے کیوں کہ ملکی خزانے میں تو ملک چلانے کے پیسے بھی نہیں ہیں۔

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی محمد عثمان نے بتایا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بہت تجربہ کار سمجھا جاتا ہے اور اگر یہ اپنی صلاحیت کے ساتھ عوام کو ریلیف دیتے ہیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

محمد عثمان نے کہا کہ فی الوقت تو یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیا خورونوش کی قیمتوں میں کمی آئی ہے لیکن اگلے 5 سے 6 مہینے تک اگر یہ ان قیمتوں کو برقرار رکھ پاتے ہیں تو پھر یہ اس حکومت کی کامیابی ہوگی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جہاں تک بجٹ میں ریلیف کی بات ہے تو کسی بھی حکومت کے لیے اس صورتحال میں ریلیف دینا مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھنا کافی مشکل ہے کہ حکومت بجٹ میں ریلیف دینے کے دعوے کس پر کررہی ہے کیوں کہ پاکستان کا فی الوقت عالمی مالیاتی ادارے کے بغیر گزارا مشکل ہے اور بجٹ تو ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف والا ہی ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں کہ سبسڈیز ختم کی جائیں اور ٹیکسز کا اطلاق کیا جائے لہٰذا حکومت کو معاہدے کے لیے یہ سب کرنا پڑے گا۔ انہوں نے سوال کیا کہ اب اس صورت میں کون سا ریلیف دیا جا سکتا ہے کیوں کہ بظاہر تو کسی ریلیف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ریلیف دینے اور نہ دینے دونوں صورتوں میں مشکلات کا سامنا ہے

ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ اگر حکومت آئی ایم ایف کے خلاف جاکر ریلیف دیتی ہے تو آئی ایم ایف پر ایک بار پھر ماضی کی طرح پاکستان کا برا تاثر جائے گا۔ ماضی کی مثال دیتے ہوئے محمد عثمان کہتے ہیں کہ ’جب گزشتہ برس پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حکومت نے 90 لاکھ کے قریب ایسے صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا جو ماہانہ 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں تو اس پر آئی ایم ایف نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا، اس کے بعد سبسڈائزڈ پیٹرول پر بھی یہی ہوا۔ یعنی حکومت جب جب آئی ایم ایف کے منافی اقدامات کرے گی تو قرض لینے میں مشکلات آئیں گی‘۔

حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی یوٹرن لے گی

خلیق کیانی کہتے ہیں کہ میرے مطابق یہ ایک سیاسی بیان ہے کہ بجٹ میں ریلیف دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائی جائیں گی تو یہ کوئی ریلیف نہیں ہوگا بلکہ ریلیف تو اس صورت میں ہوگا کہ مہنگائی کی شرح میں کمی آئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ مہنگائی کی شرح میں 38 فیصد تک کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ خیلق کیانی کا کہنا ہے کہ حکومت نے آئندہ برس کے لیے مہنگائی کی شرح سے متعلق جو پیشگوئی کی ہے وہ 21 سے 22 فیصد ہے، اگرچہ یہ 38 فیصد سے تو کم ہے مگر مہنگائی کی یہ شرح عوام کے لیے پھر بھی مشکل ہی رہے گی۔

انہوں نے آئی ایم ایف ڈیل نہ ہونے پر حکومت کے بجٹ ریلیف پر یوٹرن کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر معاہدہ نہیں طے پاتا تو حکومت کو یوٹرن لینا پڑے گا اور جو ریلیف دیے گئے ہیں وہ حکومت کے نہ چاہتے ہوئے بھی ختم ہوجائیں گے۔

انہوں نے آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کے شیڈول میں پاکستان کے نہ ہونے کی خبر پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے مطابق پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجائے گا۔ شیڈول میں نہ ہونا بڑی بات نہیں ہے۔ اگر بات بن جاتی ہے۔ تو فوری بھی اس شیڈول میں پاکستان کا اندراج کر سکتے ہیں۔

ریلیف بالکل ایسے ہی ہے کہ قرضہ لے کر کہنا کہ ترقی ہورہی ہے

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ جو عوام دوست بجٹ کہا جا رہا ہے اور بڑے ریلیف کی باتیں کی جا رہی ہیں یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ قرضہ لے کر عوام کو ریلیف دیا جاتا رہے اور اس پر یہ کہا جائے کہ ملک میں ترقی ہو رہی ہے۔ اپنی آمدن سے زیادہ اخراجات ہوں گے تو مزید مشکلات میں گھرتے جائیں گے۔

 جہاں تک بات ریلیف ملنے اور یوٹرن کی ہے تو یہ حکومت بجٹ میں جتنا چاہے ریلیف کا اعلان کردے اس سے عوام کو فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ حکومت تو اگست میں چلے جائے گی اور بعد میں آنے والی حکومت کیا کرے گی کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

کیا پاکستان کی معاشی صورتحال ریلیف دیے جانے کی متحمل ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معاشی ماہر ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کو کسی قسم کے قرضے نہیں مل رہے اور نہ عالمی بینک پاکستان کو قرض دینے کا حامی ہے اور آئی ایم ایف سے معاہدہ مشکل لگ رہا ہے کیونکہ حکومت سبسڈیز دے رہی ہے جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ سبسڈیز کو ختم کیا جائے۔

اس کے علاوہ پاکستان کو ٹیکس جمع کرنے میں بھی دشواری ہے کیونکہ پاکستان کی امپورٹ کم ہوگئی ہے کیونکہ پاکستان کو ڈالر کی قلت کا سامنا ہے اور پاکستان کے لیے لازم ہے کہ اگر پاکستان ترقیاتی منصوبوں، تنخواہوں میں اضافہ یا پھر کسی قسم کی سبسڈی دیتا ہے تو اس کے لیے خزانے میں اتنے پیسے بھی موجود ہونے چاہئیں جو پاکستان کے پاس نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لیے بہتر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کو مان کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp