سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی

جمعرات 8 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف سماعت بغیر کسی کارروائی کے غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی گئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8 رکنی لارجر بینچ نے آج سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرنا تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ  میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ،جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔

سپریم کورٹ کے عملہ کے مطابق کیس کی سماعت تین وجوہات کے باعث ملتوی کی گئی، پہلی وجہ بینچ کے ممبر جسٹس شاہد وحید طبیعت ناسازی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل نے مزید وقت مانگا تھا، اور تیسری وجہ بجٹ سیشن ہے جس کے سبب حکومت مصروف ہے اس لیے ایکٹ پر بحث نہیں ہو سکتی۔

کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔

گزشتہ سماعت میں کیا ہوا تھا؟

یکم جون کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کی مشاورت سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 میں نظرثانی کا عندیہ دیا ہے جس کے بعد سپریم کورٹ کے لارجز بینچ نے نئے قانون سے متعلق ہونے والی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی تھی۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیا ہے؟

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینیئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔

بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا۔ بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور 2 سینیئر ترین ججز ہوں گے۔

نئی قانون سازی کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق بھی مل گیا۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین اور دیگر بھی فیصلوں کو چیلنج کر سکیں گے۔

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023، چند دلچسپ پہلو

دلچسپ بات یہ ہے کہ آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھایا تو اس بنیاد پر مسترد کر دیا گیا کہ بینچ کی تشکیل چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔

مزید برآں آڈیو لیکس کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا حوالہ دیا ہے کہ اس کی رو سے آڈیو لیکس کمیشن کے خلاف درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے اور بینچ کی تشکیل کے حوالے سے معاملہ 3رکنی بینچ کو بھجوایا جانا چاہیے تھے۔

اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ 8 رکنی بینچ کے ایک رکن جسٹس سید حسن اظہر رضوی 14’اپریل کو جاری ہونے والے شیخ ہمایوں نذیر کے مقدمے کے اختلافی فیصلے میں لکھ چکے ہیں کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے ایکٹ  آف پارلیمنٹ کے بارے میں عدالتی نظرثانی کرتے ہوئے عدالتوں کو بہت محتاط رویہ اور عدالتی تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

انہوں نے لکھا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے پاس پارلیمانی ایکٹس پرعدالتی نظرثانی کا اختیار ہے لیکن اس اختیار کو پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ایک سرد جنگ میں بدلنے کی بجائے، حکمت  اور عدالتی تحمل کے ساتھ استعمال کی ضرورت ہے۔

 

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp