جنوبی وزیر ستان کا طاقتور جرگہ جس نے پولیس پر جرمانہ عائد کردیا

جمعرات 8 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں مقامی جرگہ ریاستی اداروں کے آمنے سامنے آگیا، جرگے نے قانونی کارروائی کے دوران ایک شخص کے خلاف ایف آئی آر پر نہ صرف تھانے کے ایس ایچ او کو جرمانہ اور گھر کو مسمار کرنے کا حکم دیا بلکہ جرگے کے خلاف آواز اٹھانے پر دو مقامی سیاسی رہنماؤں سے بھی جرمانہ وصول کیا۔

سابقہ فاٹا اور موجودہ قبائلی اضلاع میں جرگے کی جانب سے جرمانہ عائد کرنا اور وصولی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ فاٹا انضمام سے پہلے حکومت خود رکاوٹوں کو حائل کرنے کے لئے جرگے کا سہارا لیتی تھی اور باقاعدہ مقامی عمائدین کا ایک سرکاری جرگہ ہوتا تھا۔

چونکہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مقامی جرگے نے کسی سرکاری اہلکار کو جرمانہ کیا اور گھر مسمار کرنے کا فیصلہ دیا ہو اور فیصلے کے بعد پولیس اور دیگر سرکاری ادارے بھی بے بس دکھائی  دیے ہوں۔  مقامی ذرائع بتاتے ہیں کہ ایس ایچ او کے قبیلے نے مداخلت کی اور تین لاکھ جرمانہ جرگے کو ادا کرکے گھر کے مسمارکرنے کے فیصلے کو واپس کرا دیا۔ دوسری جانب ایس ایچ او نے جرمانے کی ادائیگی کی ترید کر دی ہے۔

معاملہ شروع کہاں سے ہوا؟

رواں ماہ کے پہلے ہفتے وزیرستان کے دور افتادہ علاقے کے تھانہ اسپین نے ایک مقامی شخص جس کی شناخت پولیس نے حیات کے نام سے کی ہے کے خلاف ایف ائی ار درج کی، لیکن مقدمے کے خلاف مقامی جرگہ میدان میں  آگیا۔ جرگے نے موقف اپنایا کہ حیات کا تعلق کسی کالعدم تنظیم سے نہیں ہے اور وہ پر امن لشکر کا رکن ہے۔

جرگے نے پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کی مذمت کرکے ایس ایچ او کے خلاف فیصلہ دیا اور فیصلے میں طاقت ور جرگے نے پہلے حکومتی عہدیدار پر جرمانہ عائد کیا اور اسکے گھر کو بھی مسمار کرنے کا حکم دیا۔

جنوبی وزیرستان کا علاقہ اعظم ورسک

 

ڈسٹرک پولیس آفیسرجنوبی وزیرستان شبیر حسین نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے غیر قانی اسلحہ رکھنے پر ایف آئی آر درج کی تھی، اور کہا کہ اگر حیات خان کے پاس اسلحہ ہے تو پیش کر دے۔ جرمانے کا سامنے کرنے والے ایس ایچ او نے بھی اس وقت یہی موقف اپنایا کہ ایف اسی نے کارکنڑہ کے علاقے میں حیات خان نامی شخص سے اسلحہ برآمد کرنے کے بعد پولیس کے حوالے کیا تھا، جس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

جرگے کی مخالفت شروع

جرگے کی جانب سے پہلی بار پولیس آفیسر کو سزا سنانے کے خلاف سیاسی اور سماجی حلقوں کی جانب سے کھل کر مخالفت شروع ہوئی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماوں نے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے جرگے کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کردیا۔

اس واقعے کے بعد ایک اور جرگہ ہوا جس میں پولیس آفیسر سے ہر حال میں جرمانہ لینے اور جرگے کی مخالفت کرنے والوں کو بھی سبق سکھانے کا فیصلہ کیا گیا اورعوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے نور زمان خان اور تاج وزیر کو تین تین لاکھ جرمانہ کر دیا، جرمانہ نہ ادا کرنے کی صورت میں گھروں کو مسمار کرنے کا بھی فیصلہ سنا دیا۔

پولیس تھانہ اعظم ورسک جنوبی وزیرستان

جرگے کے خلاف کارروائی کے لیے پولیس کو درخواست

جرگے کی جانب سے ایس ایچ او اور سیاسی رہنماؤں کو سزا سنانے کے خلاف مقامی سیاسی اتحاد  نے پولیس کو درخواست دے دی جس میں جرگے کے فیصلوں کو غیر قانی قرار دیا گیا۔  وی نیوز کو موصول درخواست میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنماؤں نے موقف اپنایا کہ کچھ لوگ لشکر کے ذریعے پولیس اور سیاسی شخصیات پر جرمانے کر رہے ہیں اور کچھ غیر سیاسی لوگ علاقے کے امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ درخواست میں مزید لکھا کہ محکمہ نہ صرف ان کے خلاف کارروائی کرے بلکہ سیاسی لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

جرمانوں کی ادائیگی

وزیرستان میں موجود کچھ باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ جرگے نے تمام جرمانے وصول کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ایچ او کی جانب سے ان کے قبیلے نے تین  لاکھ روپے جرمانے کی رقم ادا کر دی ہے جس کے بعد ان کے گھر کو مسمار کرنے کا فیصلہ واپس لیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر دو سیاسی شخصیات کی جانب سے بھی ان کے قبیلے نے رقم ادا کر دی ہے۔

جرگے کے سربراہ سردار علی خان نے وی نیوز کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دو افراد سے جرمانے وصول کر لیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایس ایچ او کی جانب سے ادائیگی نہیں ہوئی بلکہ وہ فیصلہ ڈی پی او کی مداخلت پر واپس لیا گیا ہے جس پر انسپکٹر تھانے نے بھی یہی موقف اپنایا جبکہ مقامی قبائلی افراد کا کہنا ہے کہ جرگے نے انسپکٹر سے بھی جرمانہ وصول کیا ہے اور پولیس بدنامی کو چھپانے کے لیے انکار کر رہی ہے۔

کیا جرگہ حکومت سے بھی بااثر ہے

پشاور میں مقیم جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار صفی اللہ گل کہتے ہیں کہ قبائلی اضلاع میں جرگے طاقت ور ہوتے تھے اور اپنے فیصلے پر عمل درآمد بھی کرا سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام سے پہلے قبائلی علاقوں میں عدالتی نظام رائج نہیں تھے تو فیصلے جرگے کے ذریعے ہوتے تھے۔ مزید کہا کہ اس وقت سرکاری سطح پر بھی جرگے ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا انضمام کے بعد صورت حال مختلف ہے۔ اصل میں جرگے کو قوم اور قبیلے ہی مظبوط کرتے ہیں کیونکہ وہ جرگے کا ساتھ دیتے ہیں۔ صفی اللہ گل نے وی نیوز کو بتایا کہ انہوں نے پہلی بار کسی پولیس آفیسر کو جرمانہ کی زد میں آتا دیکھا ہے اور اس کے اچھے نتائج مرتب نہیں ہوں گے۔

’پولیس کو جرمانہ اور وصولی پولیس کی کارکردگی کو متاثر کرے گی، اور پولیس دہشتگردی سے متاثرہ علاقے میں کس طرح آزادانہ کام کرسکے گی۔

 انہوں نے بتایا کہ فاٹا انضمام سے پہلے جرگے کے فیصلے ہوتے تھے اور دہشتگردی یا کسی اور قسم کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے گھروں کو مسمار بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن اب انضمام کے بعد جرگے کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے البتہ کچھ طاقتور قبائل پرانا نظام ہی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔

لشکر اور مسلحہ گروپوں کے خلاف کارروائی کی جائے، سیاسی اتحاد

عوامی نیشنل پارٹی، پی پی پی، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے مقامی رہنماؤں نے متفقہ طور پر لشکر اور مسلحہ افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈی پی او کو درخواست بھیج دی ہے، جس پر ابھی تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

اے این پی کے رہنما نور زمان خان کو جرگے کے خلاف بولنے پر جرمانے کی سزا ہوئی ہے۔ نور زمان خان نے وی نیوز کو بتایا کہ فاٹا انضمام کے بعد جرگے کی کوئی قانونی حثیت نہیں رہی۔ کچھ لوگ طاقت اور بندوق کے زور پر اپنا غیر قانونی غیر آئینی اور غیر جمہوری فیصلہ لاگو کرنا چاہتے ہیں۔

نور زمان نے بتایا کہ ان کا سادہ سا مطالبہ ہے کہ تمام لشکر ختم کیے جائیں سرکاری اداروں کی بلادستی قائم کی جائے اور فیصلے عدالتوں میں کیے جائیں۔ انکا کہنا تھا کہ میرے ان ہی مطالبات پر جرگے نے سزا سنائی ہے۔

جمعے کو مکمل ہڑتال کا اعلان

جرگے کے فیصلے کے خلاف سیاسی اتحاد نے 8 جون جمعے کے دن کو جنوبی وزیرستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کیا۔ نور زمان نے اس حوالے سے بتایاکہ ہڑتال کا مقصد جرگے کو یہ بتانا ہے کہ عوام ان کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ ہم چاہتے ہیں ان غیر قانونی اورغیرآئینی اقدامات کا خاتمہ ہو، انہوں نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ پورے وزیرستان سے لوگ اس میں شرکت کریں گے۔

جرگے کے سربراہ کا کیا موقف ہے

جرگے کے سربراہ سردار علی نے وی نیوز کو بتایا کہ جرگے میں تمام زیلی قبیلوں کی نمائندگی ہے اور یہ قوم کا مشترکہ جرگہ ہے۔ جرگہ پولیس یا ریاستی اداروں کے خلاف نہیں ہیں اس لیے پولیس آفیسر کے خلاف فیصلہ واپس لیا گیا ہے۔

تاہم انہوں نے موقف اپنایا کہ جس کے خلاف ایف آئی اّر ہوئی تھی وہ بے قصور تھا۔ پولیس کے خلاف فیصلے کے بعد کچھ افراد نے جرگے اور قوم کے عمائدین کے خلاف نا زیبا باتیں کیں جس پر ان کے خلاف فیصلہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ جرمانے کی رقم بھی وصول کی گئی ہے۔

پولیس مکمل خاموش

جرگے کے فیصلوں کے بعد پولیس افسر اور سیاسی افراد کے گھروں ممکنہ مسمار سے بچانے کے لئے پولیس نفری تعینات ہو گئی ہے۔ تاہم جرگے پر پولیس مکمل خاموش ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جرگے کے دباؤ پر حیات خان کے خلاف مقدمہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔ جرگے کے خلاف کارروائی کے لیے درخواست کے باوجود بھی پولیس خاموش ہے۔ اس حوالے سے موقف جاننے کے لئے ڈسٹرک پولیس آفیسر سے بارہا رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp