بجٹ 2023 : ’خرچے پورے کرنے کے لیے ماں پینشن دیتی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے‘

جمعہ 9 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مہنگائی اس قدر بڑھتی جا رہی ہے لگتا ہے کہ نوبت فاقوں تک آجائے گی۔ 4 بچوں کے ساتھ ماہانہ تنخواہ میں گھر کا خرچ چلانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ صرف چند جماعتیں ہی پڑھی ہیں اس لیے اندازہ نہیں ہے کہ بجٹ کیا ہوتا ہے۔ ہم تو بس زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

یہ کہنا ہے 38 سالہ کرن ناز کا، جو اسلام آباد کے سیکٹر جی 8 کی کچی بستی کی رہائشی ہیں۔ شوہر سے علیحدگی کے بعد سے وہ اپنے 4 بچوں کی خود کفالت کر رہی ہیں، اور گزر بسر کے لیے مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں۔

کرن ناز کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب وہ اپنی ماہانہ تنخواہ میں زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں۔

کرن ناز کی بات سے انکار ممکن نہیں کہ ایک عام پاکستانی کا ماہانہ بجٹ کم سے کم 45 ہزار روپے ہے۔ اس بجٹ میں صرف دو وقت کی روٹی، گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس کے بل سمیت بچوں کی پڑھائی کے اخراجات شامل ہیں۔

 انسان کی بنیادی خوراک میں گوشت، پھل اور دودھ بھی شامل ہوتا ہے۔ مگر مہنگائی میں مسلسل اضافے کے باعث اب پھل، گوشت اور دودھ جیسی بنیادی ضروریات بھی اشیائے تعیش میں شامل ہو چکی ہیں۔

اضافی کام کر کے بھی گزارا نہیں ہوتا: کرن ناز

کرن ناز کا کہنا ہے کہ گھر کا گزارا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ ہر چیز کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ میرے گھر کے اخراجات آمدن سے تقریباً دُگنے ہیں۔ میرے ابو انتقال کر چکے ہیں، میں اور میری ماں گھروں میں جا کر کام کرتے ہیں، وہ اپنی تنخواہ میں سے میرے گھر کے لیے کچھ پیسے دے دیتی ہیں ورنہ شاید مَیں سڑک پر بیٹھی ہوتی۔

تنخواہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کرن ناز کا کہنا تھا کہ ان کی ماہانہ تنخواہ تقریباًٰ 28 ہزار روپے ہے۔تاہم اضافی کام بھی کرتی ہیں تو کچھ اور پیسے بھی مل جاتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود  گزارا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

کرن ناز  کہتی ہیں کہ میں ہمیشہ شکوہ کرتی تھی کہ گھر میں نہ بجلی ہے نہ گیس، مگر اب سوچتی ہوں کہ اللہ کا شکر ہے کہ یہ دونوں سہولیات موجود نہیں، کیوں کہ بجلی اور گیس کے بل کبھی ادا نہ کر پاتی۔

کرن ناز لکڑیوں پر کھانا پکاتی ہیں جب کہ سلنڈر کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ سلنڈر بھی رکھا ہوا ہے، کبھی کبھار وہ بھی استعمال کر لیتی ہوں، مگر سلنڈر کا استعمال خاصا مہنگا ہے کیوں کہ سلنڈر بھروانے کے لیے ماہانہ 5 سے 6 ہزار روپے کا خرچہ کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کرن ناز کا کہنا تھا کہ کوئی حکومت آئے یا جائے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ بس اتنا جانتےی ہوں کہ ہر آنے والا دن اپنے ساتھ مہنگائی جیسی مشکلات لے کر آتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا  کہ خواہش ہے کہ بچے پڑھ لکھ جائیں، سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کی ٹیوشن اور گاڑی کے سفری اخراجات ملا کر تقریباً 10 ہزار وہیں چلے جاتے ہیں۔ خوف ہے کہ کہیں ان کا اسکول ہی نہ چھڑوانا پڑ جائے۔

مہینہ ختم ہونے سے پہلے تنخواہ ختم

محمدعاطف کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ  پاکستان کے ایک مقامی اخبار میں بطور رپورٹر کام کرتے ہیں۔ ان کے گھر میں تقریباً 5 لوگ ہیں۔

گھریلو اخراجات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے محمد عاطف کا کہنا تھا کہ اخراجات نے تو یہ حالت کردی ہے کہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی جیب خالی ہو جاتی ہے اور باقی کے معاملات ادھار پر چلتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی ماہانہ تنخواہ 35 ہزار روپے ہے جب کہ  گھریلو اخراجات بعض ضروریات کو قربان کرنے کے بعد بھی کم از کم 55 ہزار روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔

 ان کا کہنا تھا کہ ان 55 ہزار روپے میں سبزی، دال، آٹا، گھی، چینی، میری بیٹی کی اسکول کی 3500 روپے فیس، دودھ، بجلی و گیس کے بل اور اور گھر کا کرایہ شامل ہے۔

محمد عاطف مطابق چونکہ وہ رپورٹر ہیں اور انہیں فیلڈ میں جانا ہوتا ہے جس کے لیے ان کو پیٹرول کے لیے کم از کم 10 سے 12 ہزار چاہیے ہوتے ہیں، لہٰذا ان تمام اخراجات کے بعد میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر  کچھ کھا پی لوں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ان حالات سے سخت تنگ ہو چکے ہیں، اور سوچتے ہیں کہ جن کے 3 سے 4 بچے ہوں گے ان لوگوں کے لیے تو زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہوگی۔

عاطف کا دکھ صرف یہی نہیں کہ تنخواہ پوری نہیں پڑتی ان کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ پچھلے دو ماہ سے ادارے نے تنخواہ بھی نہیں دی۔ جس کے باعث اب گھریلو معاملات ادھار پر چل رہے ہیں۔

مزدوری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ماں پینشن دیتی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے

ایک سوال پر عاطف کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھریلو اخراجات بہت زیادہ اور آمدنی بہت کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ سرکاری اسکول میں استانی تھیں، انہیں ملنے والی پینشن بھی گھر کے اخراجات پورے کرنے میں صرف ہو جاتی ہے۔ مگر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے کہ میں بیٹا ہوکر بھی ان سے پیسے لیتا ہوں جبکہ اس عمر میں انہیں اپنی بوڑھی ماں کا خیال رکھنا چاہیے۔

بجٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجٹ میں پرائیوٹ ملازمین کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ نے اگر مزدور کی اجرت بڑھانی ہے تو ڈالر کی قیمت کو مد نظر رکھ کر بڑھائے۔

غریب صرف کفن ہی خرید سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اندازہ ہے کہ اس بار ایک مزدور کی زیادہ سے زیادہ اجرت 35 ہزار روپے ہوگی، تو ایسے میں میری مثال سامنے ہے کہ گھر میں ماں، باپ، بیوی اور ایک چھوٹی بیٹی ہے جو کہ بہت ہی چھوٹی فیملی ہے۔ میرے گھر کا خرچ 50 ہزار سے زیادہ ہے۔ اس اجرت میں غریب صرف کفن ہی خرید سکتا ہے۔

فائل فوٹو: سوشل میڈیا

7 لوگ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں

رخسانہ کا تعلق راولپنڈی کے علاقے دھمیال سے ہے اور وہ میٹرو بس سروس کے ایک اسٹاپ پر سینیٹری ورکر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کے 5 بچے ہیں اور ان کے شوہر  بھی اسی طرح کے کام سے منسلک ہیں۔

رخسانہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کے پاس تو کبھی کبھار کام آتا ہے۔ مہینے میں 3 سے 4 دیہاڑیاں لگ جاتی ہیں اور ان دیہاڑیوں کے لیے وہ اور ان کے بچے پورا مہینہ دعا گو رہتے ہیں، کیوں کہ ان کی دیہاڑی سبزی کی خریداری میں ایک دن افاقے کی مہلت دے دیتی ہے۔

رخسانہ کی آمدن 20 ہزار روپے کے لگ بھگ ہے اور ان 20 ہزار روپوں میں 5 بچوں کو پالنا یقیناً ان کے لیے زندگی کا سب سے بڑا امتحان ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر کا کرایہ 7 ہزار روپے ہے اور 7 لوگ ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں، ’مکان کی حالت کسی قبر کا منظر پیش کر تی ہے۔ زندگی ہے اور موت آنے تک اچھی ہو یا بری جینا تو ہے۔

قسمت میں شاید خواہش کرنا لکھا ہے خواہش کا پورا ہونا نہیں

رخسانہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے جب اس نے بتایا کہ اخراجات کیا بتاؤں، روٹی اور سبزی ہی ہم غریبوں کی خوراک ہے، جب میٹرو میں لڑکیاں کھانے کی مختلف چیزیں لے کر آتی ہیں تو دیکھ کر میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی یہ سب کھاؤں مگر غریب کی قسمت میں شاید خواہش کرنا لکھا خواہش کا پورا ہونا نہیں۔ مگر خدا کا شکر ہے چاہے چٹنی روٹی ہی سے سہی پیٹ ضرور بھر جاتا ہے۔

پھل کھائے عرصہ ہوگیا

رخسانہ نے ایک سوال پر بتایا کہ ایک عرصہ ہو گیا ہے ہمیں کوئی پھل کھائے ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ گزشتہ چند ماہ سے انہوں نے بچوں کو پراٹھا دینا بھی چھوڑ دیا ہے تاکہ گھی کی بچت ہو سکے۔

بچے جب صبح پراٹھے کے لیے روتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ کلیجہ پھٹ جائے گا مگر 20 ہزار میں صرف آٹا، گھی اور سبزی ہی پوری ہو سکتی ہے، بچوں کو دلاسا دے دیتی ہوں کہ جب ان کا باپ کما کر لائے گا تو انہیں ان کی من پسند چیز بنا کر دوں گی۔

بہت تکلیف ہوتی ہے مگر مجبور ہوں

قاسم علی کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں کچھ لڑکوں کے ساتھ ایک کمرے کے فیلٹ میں رہتے ہیں۔ اس کمرے کے کرایے میں ان کا حصہ 7 ہزار روپے آتا ہے۔

قاسم اسلام آباد کے سیکٹر ایف 8 میں چاٹ کا ٹھیلہ لگاتے ہیں۔ اپنی ماہانہ انکم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ مہینے میں تقریباً 25 ہزار کما لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہفتے میں وہ 3 دن آبپارہ بازار میں ٹھیلا لگاتے ہیں اور باقی دن ایف 8 میں۔

Photo credit (express tribune)

اپنے اخراجات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے قاسم نے بتایا کہ روزانہ تقریباً ان کے کھانے کا خرچہ 200 سے 300 روپے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں رہنے کے لیے انہیں مہینے میں تقریباً 8 سے 10 ہزار کی ضرورت ہوتی ہے، باقی پیسے وہ اپنے گھر بھیج دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ  ان کے گھر میں 3 بہن بھائی اور ان کے والدین ہیں۔ چھوٹے دو بھائی سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں۔ 15 ہزار گھر بھیجتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی ہے مگر مجبور ہوں۔

روزمرہ زندگی نے بہت مشکلات پیدا کر دی ہیں

قاسم علی کا کہنا ہے کہ والد بیمار ہیں مگر اس کے باوجود بھی کچھ نہ کچھ کر لیتے ہیں تاکہ گھر کا نظام چلتا رہے۔ ایبٹ آباد میں اپنا گھر ہے۔ شکر ہے کہ کرائے کا بوجھ نہیں ہے مگر اس کے باوجود بھی روزمرہ کی زندگی نے بہت مشکلات پیدا کر دی ہیں۔

انہوں نے شہرکی زندگی اور یہاں روزگار کے حوالے سے مشکلات کا ذکرکرتے ہوئے بتایا کہ یہاں رہتے ہوئے پیسے کمانا بہت مشکل ہے۔

چند ہزار روپے میری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں

قاسم کے چہرے پر تکلیف کے آثار عیاں تھے جب انہوں نے بتایا کہ پولیس والوں نے کئی بار ان کو ایف 8 میں ٹھیلا لگانے پر 2 سے 3 ہزار کا جرمانہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس والے شاید نہیں جانتے کہ یہ 2 سے 3 ہزار میری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے اپنے اخراجات کے علاوہ ان کے گھر میں صرف زندہ رہنے کے لیے بھی کم از کم 28 ہزار تک کے اخراجات آتے ہیں۔

اضافی خواہش کا سوچنا بھی نا ممکن ہے

محمد شفیق کا تعلق بٹگرام سے ہے۔ وہ ایف 8 مارکیٹ میں ایک ڈھابے نما ہوٹل پر کام کرتے ہیں۔ ان کی ماہانہ اجرت 25 ہزار ہے۔ان کے گھر میں تقریباً 8 لوگ موجود ہیں، وہ اور ان کے چھوٹے بھائی مل کر گھر کے اخراجات چلاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کی ماہانہ تنخواہ 15 ہزار روپے ہے۔ وہ ہوٹل کے ایک بیسمنٹ کے کمرے میں 4 دوستوں کے ہمراہ رہتے ہیں، جس کا ان کے حصے میں مہینے کا کرایہ 5 ہزار روپے آتا ہے۔ کہتے ہیں یوں 8 لوگوں پر مشتمل گھر کا ماہانہ خرچ 35 ہزار روپے بن جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ گھر کا نظام صرف اس حد تک ہے کہ ہم پیٹ بھر لیتے ہیں۔ باقی زندگی کی کوئی بھی اضافی خواہش کی سوچ لانا بھی ہمارے لیے نا ممکن ہے۔

محمد شفیق کے مطابق مہنگائی کے حساب سے 8 لوگ صرف اپنے زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے 35 ہزار میں ہی گزارا کر رہے ہیں۔ گاؤں میں ایک بھینس ہے تھوڑا بہت خرچ وہاں سے نکل آتا ہے۔

مشکلات میں گِھرے شفیق کے چہرے پر مسکراہٹ ایسی تھی کہ انہیں زندگی میں جیسے کوئی غم ہی نہ ہو، مگر ان کے الفاظ اس مسکراہٹ کے منافی تھے۔ کہتے ہیں کہ 15 دن بعد ادھار لے کر یا پھر لسی اور گھر کے دیسی گھی سے روٹی کھا کر گزارا کر لیتے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے۔

ایک اہم سوال

یہ تو تھی چند لوگوں کی کہانی، ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو صرف زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مزدور کی اجرت زیادہ سے زیادہ 35 ہزار بھی ہو تو کیا یہ سفید پوش لوگ زندہ رہ پائیں گے؟ واضح رہے کہ 2022 میں مزدور کی کم سے کم اجرت 25 ہزار روپے طے کی گئی تھی۔

 حکومت کی نظر میں ان کے بجٹ میں مختص کی گئی مزدور کی اجرت ان کے گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی ہوگی۔؟ مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ لوگوں کو 2 وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت ایک مزدور یا عام آدمی کی کس چیز کو مد نظر رکھ کر ماہانہ کم سے کم اجرت طے کرتی ہے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp