کہنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست بہت بے رحم ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سیاست کہیں کی بھی ہو، بے رحم ہوتی ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا، وہ سوچتی بھی نہیں ہے وہ مفادات دیکھتی ہے اور جہاں مفاد ہو گا وہاں ہی جائے گی اور اقتدار سے بڑا مفاد تو کوئی اور ہوتا ہی نہیں، میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں آنے والے سیاسی قائدین میں سے کسی کو شاید اس قوم کا دکھ درد ہو گا۔
ہاں یہ بھی سچ ہے کہ چند ایک ایسے ہوں گے جن کو اس قوم کے غریبوں کا درد ہو گا ورنہ کبھی پارلیمان کے باہر کھڑے ہو کر ان کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ جن کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں ان کی وقعت کچھ نہیں ہوتی۔
گزشتہ 10 دنوں میں میری تحریک انصاف کے ‘سابقہ ‘ دو اہم رہنماؤں سے تفصیلی بات ہوئی، ایک سندھ کی جیل میں وقت گزار چکے تھے اور دوسرے کسی اہم منصب پر تو نا رہے لیکن بین الاقوامی میڈیا کے حوالے سے جماعتی معاملات دیکھتے رہے، خیر دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سابق وفاقی وزیر اور اہم منصب پر فائز رہنے والے صاحب دلبرداشتہ تھے، عمران خان سے نہیں بلکہ نظام سے۔ میں نے ابھی کچھ پوچھا ہی نا تھا تو بولے میں نے پاکستان کی خدمت کی اور خوب خدمت کی ہے دل سے کی ہے، مگر اب میں اپنا اور فیملی کا وزیر لگوا کر ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں، میں اب اپنا کاروبار کروں گا اور اس ملک میں ڈالرز بھیجوں گا۔
میں دل ہی دل میں ان کی باتوں پر ہنس رہا تھا اور خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا اور میری اطلاعات کے مطابق ان کی وزارت میں کرپشن بھی خوب ہوئی، وہ صاحب پُرعزم تھے کہ کپتان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے مگر پھر تاریخ چند ہی دن میں بدل گئی۔
میرے دوسرے تحریکی دوست آج بھی جماعت کا حصہ ہیں لیکن وہ ایک بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ہمارے وہ لوگ جنہوں نے جماعت چھوڑی ان پر کسی قسم کا کوئی پریشر تھا، انہوں نے اپنے ہی لوگوں کو ڈرپوک اور بزدل قرار دیا بلکہ میں نے جب ڈاکٹر شیریں مزاری اور ملیکہ بخاری کا پوچھا تب بھی ان کا یہی ردرعمل تھا کہ یہ ڈرپوک لوگ ہیں پریشر کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے اقتدار میں مزے کیے اور جب قربانی دینے کی باری آئی تو یہ مشکلات کا سامنا کرنے کے بجائے بھاگ گئے۔
بات کسی حد تک درست ہے مگر پہلے کہا تھا سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا یہ بے رحم ہے اور عمران خان نے اپنی جماعت کو جس بند گلی میں لا کھڑا کیا اس میں یہی فیصلہ ہو سکتا تھا کہ کم از کم تحریک انصاف سے کنارہ کشی اختیار کر لی جائے، اور پھر اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر آخر آپ کتنی دیر چل سکتے ہیں اور پھر جب آپ اداروں کو للکاریں وہ بھی طاقت کے نشے میں تو آپ غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں، آپ نا صرف خود کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ملک و قوم کی سالمیت کے ساتھ ساتھ ملک کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
میرے کپتان کچھ ایسا ہی کر رہے تھے ان کا خیال تھا وہ تا حیات کپتان ہیں، میدان خالی ہے ایمپائر بھی ساتھ ہوں گے، اور پھر جو خیال یار ہو کر گزرو۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کپتان سے لے کر پندرھویں کھلاڑی تک سب کی سیاست ختم ہو گئی، لوگ کہتے ہیں کہ یہ قبل از وقت ہے کہ عمران خان کی سیاست ختم ہو گئی لیکن فارمیشن کمانڈرز کی پریس ریلیز کا حدف کوئی ایک سیاسی جماعت نہیں تھی مگر اس کے الفاظ واضح تھے کہ ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا، اب عقل والوں کے لیے اشارہ کافی ہے کوئی نا سمجھنا چاہتے تو مرضی ہے۔
سیاست میں کوئی لفظ EGO نہیں ہوتا، یا تو آپ کو متفق ہونا پڑتا ہے یا مسائل کا حل نکالنا پڑتا ہے یا راستہ بنانا ہوتا ہے۔ لیکن سیاست میں NO جیسا کوئی لفظ نہیں ہوتا ورنہ آپ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے انا پرست اور متکبر لیڈر ہونے کی وجہ سے اس سیاسی بحران میں اب ایک شکست خوردہ کپتان ہی بن چکے ہیں اور شاید آنے والے دنوں میں ان کی سیاسی اہمیت ہی نا ہو، مگر صاحب سیاست میں کچھ بھی حرف آخر ہوتا ہی کب ہے، ہو سکتا ہے کہیں کسی کو ان کی ضرورت پڑ ہی جائے !!!