10 جون 2014ء کو ایک ایسے بلوچ نے آنکھیں بند کیں جس نے بلوچستان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے اور بلوچوں کی کم از کام 2 نسلوں کو متاثر کیا۔
بہت سے جنگ جو بلوچ اُن کی طرف رہنمائی کے لیے دیکھتے تھے، لیکن اپنی زندگی کے آخر عشرے انہوں نے نسبتاً خاموشی سے گزارے۔ وہ آخری وقت تک ایک آزاد بلوچستان کا خواب اپنی آنکھوں میں لیے دن گزارتے رہے۔ اُن کے اس خواب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اپنے آدرش سے اُن کی وفاداری پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔
وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
مری قبیلے کے سربراہ کی حیثیت سے خیر بخش مری ایک دیو مالائی شخصیت کا روپ دھار چکے تھے اور نواب اکبر بگٹی اور سردار عطا اللہ مینگل کے ساتھ یہ تینوں شخصیات ایک ایسی مثلث تھے جنہیں بہت سے لوگ اپنا حقیقی رہنما مانتے تھے تو باقی لوگ انہیں پاکستان دشمن کا خطاب بھی دیتے تھے۔
خیر بخش مری نے کالج کی تعلیم ایچی سن لاہور سے حاصل کی۔ ان کا خاندان اس بات پر فخر کرتا تھا کہ انہوں نے انگریزوں کی چاپلوسی کرنے کے بجائے ان کے خلاف بڑی جارحانہ جدوجہد کی تھی۔
گوکہ خود خیر بخش مری اپنی زندگی کے شروع میں سیاسی سرگرمیوں سے دور رہے لیکن پھر جب پاکستان کے پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے دور میں مری کے قبائلی علاقوں میں تیل اور گیس کی تلاش شروع ہوئی تو صورت حال بدل گئی۔
خیر بخش مری نے ہمیشہ اس بات کی مخالفت کی کہ کوئی باہر سے آ کر مری قبائل کے علاقوں میں مداخلت کرے یا ایسے ترقیاتی کام کرے جس میں مقامی لوگوں کو مرکزی حیثیت حاصل نہ ہو۔ وہ بلوچستان کے لوگوں کی ترقی کے حق میں تو تھے لیکن یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاقوں کے وسائل پر بیرونی بالادستی ہو اور مقامی لوگ ان کے فوائد سے محروم رہیں۔
جب بھی ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ آیا وہ بلوچستان کی ترقی کے مخالف ہیں؟ تو انہوں نے یہی جواب دیا کہ ایسا بالکل نہیں ہے، بات صرف یہ ہے کہ ترقی کا محور اور اس کے فوائد مقامی لوگوں کے اختیار میں ہونے چاہییں۔ اُن کا خیال تھا کہ الزامات لگانے والے لوگ خود ہی مدعی ہیں اور خود ہی منصف بن جاتے ہیں اور مقامی سرداروں کو لعن طعن کیا جاتا ہے۔
گوکہ قیام پاکستان کے بعد بارہا انہیں مختلف عہدے اور وزارتیں پیش کی گئیں، حتیٰ کہ وزیر اعلیٰ اور گورنر تک بنانے کی بات کی گئی لیکن خیر بخش مری اس طرح کی ترغیبات سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ عہدوں یا دولت کے لالچی ہوتے تو ملک چھوڑ کر افغانستان میں بڑا عرصہ نہ گزارتے۔ جب کہ انہوں نے جلا وطنی اور زندان میں وقت گزارنے کو ترجیح دی۔ اُن کہنا تھا کہ ہر حکومت نے انہیں بڑی مراعات کی پیش کش کی جو انہوں نے قبول نہیں کی۔
ان کے بقول ان کے کئی ساتھی مراعات کے عوض فروخت ہونے پر تیار ہوگئے تھے لیکن انہوں نے خود اپنے بنیادی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور وہ بنیادی اصول یہی تھے کہ مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کا پہلا حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔
نواب خیر بخش مری نے 1970 کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا اور اپنی نشست پر کامیاب بھی ہوئے تھے، لیکن جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت جس میں نیشنل عوامی پارٹی کے عطا اللہ مینگل وزیر اعلیٰ اور غوث بخش بزنجو گورنر تھے، کو برطرف کیا تو خیر بخش نے مسلح جدوجہد کا ڈول ڈالا جس کے خلاف بھٹو حکومت نے فوجی کارروائی کی۔ اس دوران خیر بخش افغانستان چلے گئے اور جب افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت ختم ہوئی تو نواب مری پاکستان واپس آگئے۔
واپسی کے بعد انہوں نے سیاست میں سرگرمی سے حصہ نہیں لیا، لیکن پھر بھی وہ ایک کمیونسٹ قوم پرست کے طور جانے جاتے رہے۔ جون 2014 میں 86 برس کی عمر میں کراچی میں اُن کا انتقال ہوا۔ ان کے 6 بیٹے تھے بالاچ مری، چنگیز مری، حیربیار مری، غازان مری، حمزہ مری اور مہران مری۔
خیر بخش مری آخری وقت تک اپنے قبیلے کے سربراہ رہے۔ خیر بخش مری نے اپنے زندگی کے کئی سال پسِ زندان گزارے اور بلوچ مزاحمتی تحریک کی رہ نمائی کرتے رہے۔ ان کے بیٹے بالاچ مری بھی اس تحریک کا سرگرم حصہ رہے۔ بالاچ مری 2007 میں پاک افغان سرحد پر ایک فوجی کارروائی کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
خیر بخش مری کوہلو کے علاقے میں 1928 میں پیدا ہوئے اور شروع ہی سے مارکسی خیالات سے متاثر تھے۔ 1960 کے عشرے کے اوائل میں جب جنرل ایوب خان نے بلوچستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا جس نے خیر بخش مری سمیت بہت سے بلوچوں کو متنفر کر دیا۔ پھر اس وقت کے سرکردہ بلوچ رہنما سردار نوروز خان کو دھوکا دہی کے ذریعے مذاکرات پر آمادہ کیا گیا لیکن وعدہ خلافی کرتے ہوئے حراست میں لے کر جیل میں بند کر دیا جہاں اُن کا انتقال ہوگیا۔
جب ایوب مخالف سیاسی تحریک شروع ہوئی تو خیر بخش مری نے بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور اس کی بلوچستان شاخ کے سر براہ بن گئے۔ جب بھٹو نے حیدرآباد سازش کیس بنایا تو خیر بخش مری بھی گرفتار کر لیے گئے۔ 1977 میں انہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں رہائی ملی تو ہو وہ افغاستان چلے گئے۔
اس دوران میں ہزاروں بلوچ مزاحمتی تحریک کا حصہ بن چکے تھے اور مسلح جدوجہد بھی کر رہے تھے۔ 1980 کے بعد جب افغانستان میں کمیونسٹ حکومت تھی تو خیر بخش مری انقلابِ افغانستان کے زبردست حامی بنے، جب کہ جنرل ضیاء الحق امریکا کے ایما پر جہادِ افغانستان کی پشت پناہی کر رہے تھے۔
خیر بخش مری 1990 کے عشرے میں پاکستان واپس آئے تو جنرل مشرف کے دور تک نسبتاً خاموشی رہی لیکن جب جنرل مشرف نے اکبر خان بگٹی کو نشانہ بنایا تو بلوچستان ایک بار پھر جلنے لگا اور کئی لوگوں نے الزام لگایا کہ خیر بخش مری ایک بار پھر بلوچ مزاحمتی تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔
خیر بخش مری کا خیال تھا کہ بلوچستان کو زبردستی پاکستان میں شامل کیا گیا تھا کیوں کہ پنجاب اس کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ بات مدِ نظر رکھنی چاہیے کہ مری قبیلہ بلوچوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے اور اس کے سربراہ کی حیثیت سے خیر بخش مری جدید بلوچ قوم پرستی کے بانی کہے جاتے ہیں۔ اپنے قبیلے کے سربراہ کی حیثیت سے وہ ایک عوام دوست رہ نما تھے جنہوں نے ماضی کے کئی محصولات اپنے لوگوں پر معاف کیے اور کرائے۔ انہوں نے ون یونٹ کی شدید مخالفت کی اور اس کے خاتمے کی کام باب جدوجہد بھی کی۔
خیر بخش مری لینن کے مداحوں میں سے تھے اور حتیٰ کہ پارلیمان کے اجلاس میں بھی لینن کا بیچ لگا کر شریک ہوتے تھے۔ خاص طور پر لینن کے قومی جمہوری انقلاب کے نظریے سے انہیں مکمل اتفاق تھا اور وہ پاکستان کے آئین میں صوبوں کو حقِ خود اختیاری اور حقِ علیحدگی تک دینے کی وکالت کرتے تھے۔
وہ بلوچستان کے معاشرے کو مزید مذہبی تنگ نظری کے راستے پر ڈالنے کے شدید مخالف تھے اور ایک نسبتاً سیکولر سیاست کے داعی تھے، جس میں ریاست اور مذہب علیحدہ ہوں اور ہر شخص کا مذہب یا فرقہ اس کا ذاتی معاملہ سمجھا جائے، جس میں ریاست یا کسی دوسرے شخص کو دخل دینے کا اختیار نہ ہو۔
وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کی طرف جنرل ضیاء الحق نے ڈالا جس کی پشت پناہی پنجاب نے کی اور تمام صوبوں میں یہ انتہا پسندی مدرسوں کے ذریعے پھیلائی گئی جس نے پاکستانی معاشرے کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے۔
خیر بخش مری تمام صوبوں اور قومیتوں کو مساوی حقوق دینے کے علم بردار تھے اور سمجھتے تھے کہ ہر مسئلے کا سیاسی حال ممکن ہے اگر جمہوری روایات پر عمل کیا جائے۔ اس لیے انہوں نے 1970 میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور رکن پارلیمان بنے تھے مگر بلوچستان کی حکومت کی برطرفی نے نہ صرف انہیں بلکہ پورے بلوچستان کے رہ نماؤں کو بری طرح متاثر کیا تھا۔
اب تک بلوچستان میں چار بڑی فوجی کارروائیاں ہوچکی ہیں جن سے حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خرابے کی طرف گئے ہیں اور بلوچ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پاکستانی ریاست بلوچوں کو اُن کے حقوق دینے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ اب اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے اور خیر بخش مری کی نویں برسی کے موقع پر اس عظیم رہ نما کو خراج عقیدت پیش کیا جانا چاہیے تاکہ بلوچوں کے زخم کچھ مندمل ہوسکیں۔
اس کا واحد راستہ یہ ہے کے بلوچ بھی پر امن راستے اختیار کریں اور ریاستِ پاکستان کے ادارے بھی طاقت کے استعمال سے گزہر کریں۔ ملک اور ریاستیں باہمی افہام تفہیم سے ہی باقی رہتے ہیں اور ایک ایسا وفاق پاکستان کی ضرورت ہے جہاں انسانی حقوق اور جمہوری روایات کی مکمل پاس داری کی جائے خیر بخش مری بلوچستان کے وسائل میں سے بچے کچے ٹکڑوں پر قناعت کرنے کے قائل نہیں تھے اور ان وسائل کے استعمال کے خلاف تھے۔ بلوچستان کی جدید تاریخ کے چاروں بڑے رہ نما غوث بخش بزنجو، عطاء اللہ مینگل، اکبر بگٹی اور خیر بخش مری ایک بھر پور سیاسی کردار ادا کر رہے تھے اس لیے عزت و احترام کے مستحق ہیں۔