سمندری طوفان ’بپر جوائے‘ کیٹی بندر سے آج ٹکرانے کا خدشہ، کراچی کو خطرہ قدرے کم

بدھ 14 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سمندری طوفان ’بپر جوائے‘ جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے کراچی کی ساحلی پٹی پر آباد لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں چشمہ گوٹھ کے متاثرین بھی ان اقدامات کے انتظار میں ہیں جن کی ہدایات وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے دی گئی ہیں۔

کراچی میں سمندری طوفان کے اثرات آنا شروع ہو چکے ہیں، کہیں تیز، کہیں گرد آلود ہوائیں چل رہی ہیں تو کچھ علاقوں میں بارش ہو رہی ہے۔

شہر قائد کے کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پانی داخل ہو چکا ہے۔ ایسا ہی ایک علاقہ ہے چشمہ گوٹھ بھی ہے جو کہ 400 گھروں پر مشتمل ہے۔

صورت حال کے پیش نظر سندھ حکومت نے اقوام متحدہ کے تعاون سے عارضی پناہ گاہ قائم کردی ہے، جس کا مقصد نقل مکانی کرنے والے عوام کی رہائش، کھانے پینے اور صحت کا انتظام ایک جگہ میسر کرنا ہے لیکن چشمہ گوٹھ پہنچ کر اندازہ ہوا کہ وہاں تو صرف ایک شیلٹر بنا کر اسے عوام کے حوالے کردیا گیا ہے جس میں پانی ہے نا ہی بجلی، سونے کے لیے مرد و خواتین کے لیے الگ الگ جگہ کا انتظام بھی نہیں کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ اور گورنر سندھ کی چشمہ گوٹھ آمد

وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور گورنر سندھ کامران ٹیسوری سمیت اعلیٰ حکومتی شخصیات کی جانب سے چشمہ گوٹھ کے دورے تو کیے جا رہے ہیں لیکن وہاں کے متاثرین کا کوئی پرسان حال نہیں، ناقص انتظامات کے باعث شہری گھروں کو واپس جانے کے لیے بے تاب ہیں چاہے پانی میں ہی کیوں نا جانا پڑے۔

صحت کی سہولیات

چشمہ گوٹھ کے متاثرین طوفان کے لیے بنائی گئی اس پناہ گاہ کے ایک کونے میں 2 بستروں پر مشتمل ایک ڈسپنسری بھی بنائی گئی ہے جس میں اس وقت 2 ڈاکٹر موجود ہیں، ڈاکٹر احمد منصور نے وی نیوز کو بتایا کہ بجلی اور پانی نا ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ جب ہم یہاں نہیں رہ پا رہے تو متاثرین کیسے رہیں گے۔

ڈاکٹر احمد منصور کے مطابق اب تک ان کے پاس جو مریض آرہے ہیں ان میں خارش اور نزلہ، زکام کی بیماری پائی جا رہی ہے، خارش کی وجہ گرمی ہے۔

کھانے پینے کی سہولیات

طوفان متاثرین کا سب کچھ یا تو پانی کی نذر ہو چکا یا پھر اُس تک رسائی ممکن نہیں، ایسے میں یہ لوگ مکمل طور پر امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ وہاں موجود کچھ لوگ جو بچوں کے ہمراہ کھانا کھا رہے تھے جب اُن سے دریافت کیا کہ یہ کھانا حکومت کی جانب سے دیا گیا ہے تو سن کر حیرانی ہوئی کہ کھانا وہ خود ہوٹل سے لے کر آئے ہیں۔

متاثرین کا کہنا تھا کہ ہمیں گھروں سے نکال کر یہاں لے آئے ہیں اس سے تو اچھا تھا ہم وہیں ہوتے، سونے کا انتظام ہے نا ہی پانی و بجلی کا، ہمیں نیچے بچھانے کے لیے صرف دریاں دی گئی ہیں اور خواتین کے لیے بھی یہی جگہ ہے۔

چشمہ گوٹھ ہے کہاں؟

اگر کراچی صدر سے آپ چشمہ گوٹھ کے لیے نکلیں تو قیوم آباد سے ہوتے ہوئے کم و بیش 16 کلومیٹر سفر طے کرنے کے بعد آپ ابراہیم حیدری پہنچیں گے جس کے بعد مزید 8 سے 10 کلو میٹر کا سفر آپ کو چشمہ گوٹھ پہنچا دے گا۔

چشمہ گوٹھ، عوام اور طوفان

چشمہ گوٹھ ویسے تو سمندر کے ساحل پر آباد ہے لیکن سمندر کے پیچھے جانے کے باعث مچھیرے بھی آگے بڑھتے چلے گئے اور سمندر کے اس حصہ میں آباد ہو گئے جہاں کبھی پانی ہوا کرتا تھا، یہاں آباد پرانے لوگوں کو تو اس بات کا اندازہ ہے کہ پانی کا آنا کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ علاقہ پانی کا ہی ہے لیکن نئی نسل کے لیے پانی کا اندر تک آنا نئی بات تھی اور یہی وجہ ہے کہ جہاں جہاں پانی آتا رہا وہاں کے نظارے دیکھنے شہری بھی ہہنچتے گئے، شہری طوفان کے ڈر سے بے خوف نہاتے رہے اور محظوظ ہوتے رہے۔

تفریح کرنے والوں کے رنگ میں بھنگ تب ڈلا جب میڈیا وہاں پہنچا اور ساتھ ہی پولیس کو بھی اپنی ڈیوٹی کا خیال آیا۔ میڈیا کے ڈر سے پولیس نے لوگوں پر ڈنڈے تو نہیں برسائے لیکن منت سماجت ضرور کی اور یہ کہہ کر شہریوں کو پانی سے نکالا کہ اپنا نہیں تو ہمارا ہی خیال کرلو۔ اس آنکھ مچولی کا سلسلہ تب تک جاری رہا جب تک میڈیا وہاں پر موجود تھا۔

سمندری طوفان جمعرات کو دن 11 بجے پاکستان میں داخل ہو گا

کراچی کی جانب بڑھنے والے سمندری طوفان ’بپر جوائے‘  کا رُخ ساحل سے دور ہونے لگا ہے۔ 15 مئی کو دن 11 بجے یہ طوفان پاکستان میں داخل ہونے کے بعد کیٹی بندر سے ٹکرانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اس وقت تک کی صورت حال کی مطابق ’بپر جوائے‘ کیٹی بندر سے قریب جبکہ شہر قائد سے دور ہو گیا ہے۔

محکمہ موسمیات نے بتایا ہے کہ سمندری طوفان ’بپر جوائے‘ کراچی کےجنوب سے 310 کلو میٹر دوری پر ہے جبکہ کیٹی بندر کے جنوب، جنوب مغرب سے صرف 240 کلو میٹر دور ہے۔

محکمہ موسمیات نے مزید بتایا ہے کہ سسٹم کے مرکز کے قریب لہریں 30 فٹ تک بلند ہو رہی ہیں جبکہ اطراف میں ہواؤں کی رفتار 150 سے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی ہے۔

محکمہ موسمیات نے پیشن گوئی کی ہے کہ سمندری طوفان 15 جون کی شام کو کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کے درمیان کسی بھی جگہ پر ٹکرا سکتا ہے۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سمندری طوفان کے ٹکرانے کے نتیجے میں پاکستان کی جنوب مشرقی ساحلی پٹی پر تیز بارش ہو سکتی ہے۔ ٹھٹھہ، بدین، سجاول، تھرپارکر، عمر کوٹ میں 17 جون تک بارش کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

شہریوں کا بحفظات انخلا

دوسری جانب سمندری طوفان کے خطرے کے پیش نظر پاک فوج، نیوی اور سول انتظامیہ کی جانب سے ساحلی علاقوں میں بھرپور امدادی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ نیوی کے غوطہ خوروں نے سمندر میں پھنسے درجنوں ماہی گیروں کی جان بچا لی ہے اور ان کو بحفظات باہر نکالا ہے۔

اس کے علاوہ خطرے والے علاقوں سے 73 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ لیکن کچھ علاقوں میں لوگ اب بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے سے انکاری ہیں۔

چھوٹے طیاروں کا فلائٹ آپریشن بند

سمندری طوفان کے کراچی کے قریب پہنچنے کے باعث ایئرپورٹ پر حکام نے چھوٹے طیاروں کا فلائٹ آپریشن بھی بند کر دیا ہے۔ شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ کمرشل طیاروں کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا جائے گا۔

ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی تیاریاں کر لیں: وزیراعظم شہباز شریف

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سمندری طوفان کے نتیجہ میں کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیاریاں کر لی گئی ہیں، لوگوں کو ساحلی علاقوں سے محفوظ مقامات تک منتقل کرنے کی ہدایت کی ہے، وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی کی سربراہی میں کمیٹی صورتحال کی نگرانی کرے گی۔

بدھ کو اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ سمندری طوفان ’بپر جوائے‘ کے کیٹی بندر سے ٹکراؤ کے امکانات کے باعث تمام متعلقہ حکومتی ادارے لوگوں کے پیشگی ریسکیو کو یقینی بنا رہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے ہدایت کر دی ہے کہ ساحلی علاقوں میں رہنے والے 50ہزار سے زائد لوگوں کو حفاظتی مقامات تک پہنچایا جائے جہاں ان کو پینے کا صاف پانی اور خوراک کے ساتھ ساتھ طوفان کے خاتمہ تک آرام دہ رہائش اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

کراچی کو براہِ راست خطرہ نہیں مگر اثرات شہر پر رونما ہوں گے، شیری رحمان

اِدھر وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ سینیٹر شیری رحمان اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے سمندری طوفان بپر جوائے کی صورتحال اور اس سے نمٹنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بارے میں جائزہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ سمندری طوفان بپر جوائے کی شدت کم ہوئی ہے تاہم اس سے منسلک خطرات بدستور برقرار ہیں اور اس کے مطابق تمام اقدامات بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔

شیری رحمان نے کہا کہ بپر جوائے کی نوعیت انتہائی شدید طوفان کی ہے جس کی سطح پر ہوائوں کی رفتار 140 سے 150 کلومیٹر ہے جبکہ اس کے مرکز میں 170 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سمندری طوفان کے جس راستے کی پیشگوئی کی گئی تھی یہ اسی کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور یہ جمعرات کو کیٹی بندر کے ساحلی علاقے سے ٹکرائے گا، کراچی کو براہِ راست طوفان سے خطرہ نہیں ہے لیکن اس کے اثرات شہر پر رونما ہوں گے۔

سمندری طوفان کے باعث آر ایل این جی سے بجلی کی پیدوار میں کمی

وزارت توانائی کے ترجمان نے کہا ہے کہ سمندری طوفان ’بپر جوائے‘ سے ملک میں آر ایل این جی کی ترسیل میں خلل پیدا ہوا ہے، آر آیل این جی سے بجلی کی پیداوار میں عارضی کمی اور لوڈ شیڈنگ میں عارضی اضافہ ہوا ہے۔

بدھ کو اپنی ٹوئٹ میں ترجمان نے کہا کہ سمندری طوفان کے دوران اور بعد میں بجلی کی بحالی میں حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی (حیسکو) کی مدد کے لئے گیپکو، لیسکو، فیسکو، میپکو اور سیپکو 5 تقسیم کار کمپنیوں کی ٹیمیں بھجوائی جا رہی ہیں اور یہ ساحلی علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں گی۔

انہوں نے کہا کہ سمندری طوفان بپر جوائے سے پاکستان میں آرایل این جی کی ترسیل میں خلل پیدا ہوا ہے جس سے آر ایل این جی سے بجلی کی پیداوار میں عارضی کمی اور لوڈ شیڈنگ میں عارضی اضافہ ہوا ہے۔ترجمان نے کہا کہ ہم کراچی کے شہریوں کو معمول کی فراہمی برقرار رکھنے کے لئے کراچی الیکٹرک کو ایندھن کی مکمل فراہمی کو یقینی بنارہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp