جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی کی مبینہ سیاسی سرگرمیوں سے ان کی ہی اتحادی جماعتیں پریشانی کا شکار ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے اس ضمن میں وزیر اعظم شہباز شریف کو تحفظات سے آگاہ کیا جاچکا ہے، اور اب وزیر اعظم کی اپنی جماعت اور پی پی پی کی جانب سے بھی گورنر کی برطرفی کے مطالبات سامنے آگئے۔
گورنر کے خلاف سب سے پہلے وفاق میں حکومتی اتحادی عوامی نیشنل پارٹی کھل کر اس وقت سامنے آئی جب وزیر اعظم شہباز شریف اپنے حالیہ دورے میں پشاور پہنچے۔ باخبر ذرائع نے بتایا کہ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے گورنر کی موجودگی میں گورنر ہاوس میں ملاقات کے دوران وزیراعظم کو گورنر کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔
ذرائع کے مطابق ایمل ولی کی جانب سے گورنر پختونخوا کے سیاسی کردار پر برملا اعتراض حیران کن بات تھی۔ گورنر ہاؤس کے وسیع ہال میں وفاقی وزیر، گورنر اور اتحادی جماعتوں کے سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں جب ایمل ولی خان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تو گورنر حاجی غلام علی بھی چپ نہ رہ سکے، لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔
ایمل ولی خان نے اس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں بھی شہباز شریف سے ملاقات کی اور دوبارہ گورنر کے خلاف شکایتوں کے انبار لگادیے۔ اے این پی کے بعد وزیر اعظم کی اپنی جماعت بھی گورنر غلام علی کے خلاف کھل کر میدان میں آگئی ہے۔ گزشتہ روز ورکرز کنوینشن میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی موجودگی میں پارٹی رہنما اور سابق ایم پی اے اختیار ولی بھی گو رنر کے خلاف بول پڑے۔
ورکرز کنویشن سے خطاب کرتے ہوئے اختیار ولی نے موقف اپنایا کہ وفاق میں ان کی حکومت ہے لیکن صوبے میں گورنر مزے کر رہے ہیں۔ انہوں نے گورنر غلام علی کی برطرفی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے ورکرز پر بھی راج کر رہے ہیں۔
سیاسی اتحادیوں اور سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور سب کو خوش رکھنے کے حوالے سے مشہور گورنر غلام علی کے خلاف پیپلز پارٹی نے بھی علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ پارٹی رہنما نگہت اورکزئی نے بھی گورنر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔
‘خیبر پختونخوا میں گورنر راج ہے‘
سابق ایم پی اے اور لیگی رہنما اختیار ولی کا کنوینشن سے خطاب گورنر خیبرپختونخوا کے گرد گھومتا رہا۔ اپنی ہی اتحادی جماعت کے گورنر کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے واضح طور پر کہا کہ صوبے پر چونکہ گورنر حکومت کر رہے ہیں لہذا صوبے میں گورنر راج ہے۔
مولانا فضل الرحمان کے’سمدھی’ گورنر غلام علی کیخلاف بغاوت؟
مشرف دور میں میئر پشاور منتخب رہنے والے حاجی غلام علی کے بارے میں خیال ہے کہ مولانا فضل رحمان سے رشتہ کرنے کے بعد اہم عہدہ لینے میں آسانیاں پیدا ہوئیں اور ایوان بالا تک بھی پہنچے۔ پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کو نظر انداز کرکے غلام علی کو گورنر بنانے پر پارٹی کے اندر میں تحفظات تھے جبکہ اتحادی جماعتیں بھی خوش نہیں تھیں۔
نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ اب گورنر کی جانب سے سیاسی معاملات میں مبینہ مداخلت سے اتحادی بھی خوش نہیں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیئر رہنما سردار حسین بابک نے وی نیوز کو بتایا کہ گورنر ہر معاملے میں مداخلت کر رہے ہیں۔ ‘گورنر کا عہدہ آئینی ہوتا ہے ہمیں ان کی سیاسی معاملات میں مداخلت منظور نہیں ہے۔‘
ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ میں مداخلت
عین اس وقت جب عام انتخابات سر پر ہوں اور بے جا ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ ہو تو سیاسی جماعتوں کو فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ وی نیوز سے گفتگو میں سردار حسین بابک نے گورنر غلام علی کےخلاف سرکاری حکام کی ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ میں مداخلت کا الزامبھی عائد کیا۔
’وہ فون کرکے اپنی مرضی اور من پسند افسروں کو اہم عہدوں پر تعینات کر رہے ہیں۔ گورنر نگران حکومت کے معمولات میں مداخلت کررہے ہیں۔ گورنر ہونے کے ناطہ انہیں چاہیے تھا کہ اپنے آئینی عہدے اور اتحادیوں کا خیال رکھتے۔لیکن وہ ایسا نہیں کر رہے ہیں۔‘
گورنر ہاؤس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز
سردار حسین کے مطابق گورنر ہاؤس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ ’اپنی ذمہ داریاں بھول کر وہ ہر محکمے میں ہاتھ مار رہے ہیں۔ صوبے میں اعلی تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر ہیں، جن کے لیے فنڈز دستیاب نہیں لیکن گورنر اس پر خاموش ہیں۔۔۔ گورنر یونین کونسلرز کو بلا کر میٹنگ کرنے کے بجائے صدر سے ملاقات کرکے مسائل حل کرنے پر توجہ دے۔‘
کیا پارٹی کونسلرز کو توڑا جارہا ہے؟
سردار حسین بابک کے مطابق گورنر اپنے بیٹے سٹی میئر کے ساتھ آئے روز کونسلرز سے میٹنگ کر رہے ہیں اور ہمارے ارکان کو لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو کسی صورت منظور نہیں۔
ایمل ولی خان کی جانب سے الزمات کی گورنر حاجی غلام علی تردید کر چکے ہیں تاہم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے الزمات پر ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو کوئی جواب نہیں آیا۔