سپریم کورٹ کے ازخود اختیارات آئینی ترمیم کے ذریعہ محدود ہونا چاہئیں، چیف جسٹس کے ریمارکس

بدھ 14 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اور پنجاب الیکشن کیس کی مشترکہ سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ازخود اختیارات میں سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کردیں لیکن یہ آئینی ترمیم کے ذریعہ ہونا چاہیے۔

ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3  رکنی بینچ کر رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے 1962 کے عدالتی ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہ فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا تھا کہ عدالت کو اپنا پرانا فیصلہ ری اوپن کرنے میں بہت ہچکچاہٹ اور احتیاط برتنی چاہیے۔

چیف جسٹس بولے؛ بہت اچھا فیصلہ ہے جو نظر ثانی سے متعلق تھا۔ فیصلے میں دانش مندی ہے، وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کر رہے ہیں، بھارت میں حق سماعت نہ ملے تو  نظر ثانی ہوتی ہے، ہمارے ہاں فیصلہ غیر قانونی ہو تو نظر ثانی ہوجاتی ہے۔ غلط قانون کو حتمی نہیں ہونے دیتے۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ فوجداری مقدمات کی نظر ثانی میں صرف نقص دور کیا جاتا ہے تاہم سول مقدمات کی نظر ثانی کا دائرہ کار بڑا ہے۔ چیف جسٹس بولے؛ نظر ثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں نہیں بدلا جا سکتا۔ ہم یہ دیکھ ریے ہیں کیا پارلیمنٹ نظر ثانی کا دائرہ کار بڑھا سکتی ہے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپکی دلیل ہے کہ نظر ثانی کو اپیل میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا حالانکہ دوبارہ سماعت کا تصور اپیل میں ہے۔ علی ظفر بولے؛ آرٹیکل 184(3) حتمی احکامات کے لیے بنایا گیا ہے۔ آرٹیل  184(3) کی تمام شرائط پوری ہورہی ہوں تو ہی عدالت احکامات دیتی ہے۔

علی ظفر کے مطابق اگر آرٹیل 184(3) میں نظر ثانی کے بجائے اپیل دی جائے گی تو آرٹیل 184(3) کے اختیارات کم ہوجائیں گے۔ جب قانون ساز کہیں کہ وہ آرٹیل  184(3) کا دائرہ وسیع کررہے ہیں تو دراصل دائر اختیار کم کیا جارہا ہوتا ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ دراصل آرٹیل  184(3) کو ختم کررہے ہوتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن بولے؛ آپ کے مطابق آرٹیکل  184(3) حتمی فیصلے کا اختیار دیتا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر کے مطابق فیصلہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

علی ظفر کا موقف تھا کہ موجودہ قانون کے تحت بھی اگر فیصلہ میں قانونی سقم ہوتو اسے درست کیا جا سکتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس بولے؛ سوال یہ ہے کہ کیا نظر ثانی کو اپیل تک لے جایا جا سکتا ہے یا نہیں، آپ کے مطابق نظر ثانی کو اپیل میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کے مطابق کیس کی دوبارہ سماعت کا تصور صرف اپیل میں ہے۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ 184(3) کی شرائط پوری ہونے کے بعد حتمی فیصلہ دیا جاتا ہے، 184(3) حتمی فیصلوں کیلئے آئین میں شامل کیا گیا ہے، قانون آنے سے پہلے زیرالتوا مقدمات پر اس کا اطلاق نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہتے ہیں کہ اس وقت الیکشن کمیشن کی  نظر ثانی زیر التواء ہے اس پر اس کا اطلاق نہیں؟ جس پر علی ظفر بولے؛ جی ہم یہی کہہ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ہے۔

اس سے قبل ایڈووکیٹ حنیف راہی کی جانب اپنے اغوا کے حوالے سے گزارشات عدالت کے گوش گزار کرنے کی درخواست پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملک ایک بدلتی ہوئی صورتحال سے گزر رہا ہے لیکن ہمیں صبر سے کام لیتے ہوئے شکایت نہیں کرنی چاہیے۔ ’ہم نے آپ کی درخواست پڑھ لی ہے۔ آپ کو کوئی شکایت ہو تو مجھ سے مل سکتے ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp