کراچی میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کے موقع پر امن او امان کی صورتحال قائم رکھنے کے لیے رینجرز تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی، وزارت داخلہ نے انتخابات کے موقع پر امن و امان کی صورت حال کو ہر صورت قائم رکھنے کے لیے رینجرز کی تعیناتی کی منظوری دی۔
اس سے قبل کراچی میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے موقع پر امن وامان کی حساس صورتحال کے باوجود رینجرز کی تعیناتی سے انکار کرنے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے وفاقی وزارت داخلہ کو جوابی خط لکھا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری عمر حمید کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ یکم جون کو میئر و ڈپٹی میئر کراچی کے انتخاب کے دوران رینجرز کے لیے لکھے گئے خط کے جواب میں آپ نے 12 جون کو ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
معاملے کو ’فوری نوعیت‘ کا قرار دیتے ہوئے سیکریٹری الیکشن کمیشن نے لکھا کہ ’سیاسی ماحول کشیدہ ہے اور تشدد کا خطرہ واضح ہے۔ اس کیفیت میں ملک کی امن و امان کی صورتحال کو مدنظر رکھ کر پولنگ اسٹیشن میں فول پروف سیکیورٹی کی فراہمی اہم ہے۔‘
الیکشن کمیشن کے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات ‘بہت حساس‘ اور ’اہم‘ ہیں جہاں دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔
’انتخابی عمل کے دوران تشدد کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
جوابی خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس پس منظر میں نشاندہی کر رہا ہوں کہ اگر الیکشن کے انعقاد کے دوران ایسی صورتحال بنتی ہے تو وزارت داخلہ ذمہ دار ہو گی۔‘
کراچی کے میئر الیکشن میں کیا ہو رہا ہے؟
الیکشن کمیشن کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق کراچی میں میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب 15 جون جمعرات کو ہونا ہے۔ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی نے ایک برس تک کراچی کے ایڈمنسٹریٹر رہنے والے اپنے رہنما مرتضی وہاب کو امیدوار نامزد کیا ہے۔
پیپلزپارٹی کو وفاقی میں اپنے اتحادی مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے ساتھ سٹی کونسل کے ایوان میں 173 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
چونکہ مرتضی وہاب بلدیاتی انتخابات میں کامیاب نہیں ہوئے تھے اس لیے کراچی میں الیکشن کے بعد سندھ اسمبلی میں خصوصی قانونی سازی کرتے ہوئے غیرمنتخب نمائندے کو بھی میئر کا الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی ہے۔
دوسری جانب جماعت اسلامی نے میئر کراچی کے لیے حافظ نعیم الرحمن کو نامزد کیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ان کی غیرمشروط حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس پیشرفت کے بعد کراچی کی مقامی حکومت کے انتخابات میں جماعت اسلامی کے امیدوار کو 193 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
کراچی میئر کے الیکشن میں کامیابی کے لیے 174 ووٹ درکار ہیں تاہم الیکشن کمیشن نے یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ انتخابی عمل کے موقع پر ایوان میں موجود افراد کے ووٹ گنے جائیں گے اور جس نے اکثریت حاصل کی وہ کامیاب قرار دیا جائے گا۔
کراچی کے میئر کے انتخابات سے قبل تحریک انصاف کے مختلف نمائندوں کے لاپتہ ہونے کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔ جماعت اسلامی کے میئر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن اور تحریک انصاف کی قیادت کہہ چکی ہے کہ ان کے نمائندوں کو سندھ کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی لاپتہ کر رہی ہے۔
منگل کی شب حافظ نعیم الرحمن نے ایک ویڈیو بھی ٹویٹ کی جس میں ویگو گاڑیوں میں سوار نامعلوم افراد ایک گھر میں داخل ہو کر کسی کو ہمراہ لے کر جاتے دکھائے گئے ہیں۔
Another elected Chairman from UC-8, Safoora Town, abducted and disappeared just before the mayoral election, ensuring they couldn’t cast their vote. With each passing moment, the #PPP government proves it surpasses even Hitler in #fascism. Is there any institution, election… pic.twitter.com/62H4nxxq7B
— Naeem ur Rehman (@NaeemRehmanEngr) June 13, 2023
میئر کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کے مطابق ’پیپلز پارٹی کی قیادت نے فاشزم میں ہٹلر کو بھی مات دے دی ہے۔‘