اسٹیبلشمنٹ یا عمران

جمعرات 15 جون 2023
author image

حماد حسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سیاستدان، دانشور اور صحافی تو کیا عام سیاسی کارکن جو فکری اور نظریاتی حوالے سے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے مخالف یا بالفاظ دیگر فوج کے سیاسی کردار کے سخت ناقد رہے تھے، موجودہ حالات میں عمران خان یا پی ٹی آئی کی حمایت میں سامنے آنے کے بجائے یا تو خاموش رہے یا پھر مخالف سمت میں جا کھڑے ہوئے۔

یہ طبقہ ہمیشہ ایک دلیر بانکپن کے ساتھ مشکل ترین حالات میں بھی نہ صرف جمہوری روایات کا حامی اور اسٹیبلشمنٹ کے مقابل ڈٹا نظر آیا بلکہ اس کے نتائج بھی بھگتا رہا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ منظر نامے میں ان کا سیاسی کردار اور رویہ ماضی سے مختلف کیوں ہے؟

بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اب کے بار  جمہوریت نواز طبقے کا جھکاؤ ایک سیاسی جماعت (پی ٹی آئی ) کے بجائے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف کیوں ہے؟

ظاہر ہے کہ تجزیے کی قوت اور تاریخی حقائق سے باخبر اس جہاندیدہ طبقے کو عقل و دانش اور شعور کے فقدان کا سامنا ہرگز نہیں، ایسے میں اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ کردار اور عمران خان کی سیاست کا تقابل اور موازنہ کرنے کے بعد ہی جمہوری قوتوں کے موجودہ (خلاف معمول )رویے نے جنم لیا۔

پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان کی سیاست کسی جمہوری اقدار کی نشو ونما، کسی پارلیمانی بالادستی یا آئین و قانون کی سربلندی کے لیے ہرگز نہیں، بلکہ یہ فرد واحد کی ذاتی خواہشات اور اقتدار کی ہوس کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ جس سے ماضی قریب میں بہر حال ایک بد ترین سول آمریت برآمد ہوئی تھی۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ مرحوم  کے تاریخی فیصلے کے بعد اپنے سیاسی مفادات کے لیے سابق آمر پرویز مشرف کی حمایت میں کھڑا ہونے سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے کیسز بنوانے اور انہیں جیلوں میں ڈالنے تک کہیں بھی کسی سیاسی اور جمہوری رویے کی شہادت دستیاب نہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ خان صاحب کی سیاست کے ہاتھ میں طاقت آتے ہی اس سے ایک خوفناک آمریت ٹپکتی دکھائی دیتی ہے جو ان کے ہر مخالف سیاستدان، دانشور ، صحافی، سرکاری افسروں اور عام سیاسی کارکنوں کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔

ظاہر ہے کہ اس ’سیاست‘ کو شعور سے بے بہرہ کوئی ہجوم تو میسر آ سکتا ہے لیکن جمہوری جدوجہد اور سیاسی شعور سے لیس طبقے سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

جہاں تک عمران خان کے ذاتی رویے اور کردار کا تعلق ہے تو یہاں بھی عمران خان کا پلڑا بھاری پن سے یکسر محروم ہے، کیونکہ فوجی آمروں سے شدید نفرت کے باوجود بھی اس طبقے کا خیال ہے کہ ان کا فوجی یا سیاسی کردار جو بھی رہا لیکن کم از کم ذاتی رویے میں وہ عمران خان سے بدرجہ اتم بہتر تھے۔

مثلاً جنرل ضیاء اس ملک کے بد ترین اور خوفناک ڈکٹیٹر تھے جس نے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی چڑھانے سے بھی گریز نہیں کیا، اس کے باوجود بھی انہوں نے پیپلزپارٹی حتیٰ کہ بھٹو خاندان کے خلاف کبھی بدزبانی اور گالم گلوچ کا رویہ نہیں اپنایا۔ جب کہ عمران خان نے زندہ مخالف سیاستدان (مرد و خواتین) تو کیا کہ لحد میں اتری یا آخری سانسیں لیتی گھریلو خواتین تک کو بھی نہیں بخشا۔

اسی طرح عمران خان کی خانگی زندگی مشرقی روایات اور اسلامی اقدار کے برعکس  جمائما خان کے یہودی پس منظر سے ریحام خان کی کتاب اور بشریٰ مانیکا سے نکاح تک شدید تنازعات اور اعتراضات کا شکار رہی، جب کہ فوجی آمروں سے لےکر موجودہ مقتدر شخصیات تک نے اس حوالے سے کم از کم ایک با وقار اور شائستہ انداز میں اس رشتے کو نبھایا، گو کہ یہ ایک ذاتی معاملہ ہے لیکن اسی سے  ایک فرد کے رویے اور احساس ذمہ داری کا تعین ہوتا ہے۔

جمہوریت پسند طبقات کی نظروں سے یہ بات بھی ہرگز  اوجھل نہیں کہ عمران خان کی سیاسی اُٹھان کن مقاصد کے لیے اور کس سے منطقے سے ہوئی؟ اور پھر خان صاحب کی اچانک ’مقبولیت‘ کے ساتھ ہی منتخب وزیراعظم کی گالم گلوچ، سیاسی اور جمہوری قوتوں پر مسلسل حملے، پارلیمان کی بے توقیری، لانگ مارچ اور دھرنوں کے بعد آر ٹی ایس سسٹم کے ذریعے اقتدار تک رسائی کے اصل آرکیٹکٹ کون تھے؟

یہی وہ پس منظر ہے جس سے عمران خان کے اس رویے نے جنم لیا کہ وہ صبح و شام (بدلتے ہوئے منظر نامے کو سمجھے بغیر ) ایک بچگانہ روش اور غیر سیاسی انداز میں یہی گردان کرتے رہتے ہیں کہ ’آرمی چیف مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا؟‘۔ یا یہ کہ ’میں سیاسی چوروں سے نہیں بلکہ صرف فوج کے سربراہ سے مذاکرات کروں گا ‘۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ فوجی آمریت سے بھی کئی گنا زیادہ خوفناک ہے۔

اس کے ساتھ ہی عمران خان کی تباہ کن کارکردگی، بدترین کرپشن، پارلیمان پر اسٹیبلشمنٹ کو فوقیت، آمرانہ طرز عمل اور پھر اس پر مستزاد گالم گلوچ، بے تحاشا جھوٹ، یو ٹرنز اور سیاسی پراگندگی انہیں حقائق تک رسائی سے محروم ہجوم تو فراہم کر سکتی ہے لیکن سیاست اور جمہوریت سے دلچسپی رکھنے والے باخبر لوگوں کا ایک بے سمت اور بے ترتیب جذباتی لہر سے تعلق کیا؟ اور ہمدردی کیا ؟

اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کے پلڑے میں ڈالا جانے والا کریڈٹ بھی دراصل دوسروں ہی کا مرہون منت ہے۔ مثلاً 92ء کا ورلڈ کپ دوسرے کھلاڑیوں کی کارکردگی کے بل بوتے پر جیتا گیا تھا نہ کہ عمران خان کے۔ اسی طرح شوکت خانم ہسپتال کو زمین پنجاب حکومت نے اور پیسے عوام نے دیے،  لیکن اس کا سیاسی فائدہ ہمیشہ عمران خان ہی اٹھاتا رہا ہے۔

اور جب یہی عمران خان صحیح معنوں میں ٹیم کیپٹن (وزیراعظم ) بنایا گیا اور ملک اس کے حوالے ہوا  تو پھر ’کارکردگی‘ آپ کے سامنے ہے۔ جب کہ اس کے برعکس فوج کے سیاسی کردار سے الگ بحیثیت ایک قومی ادارہ اور تحفظ کے ضامن کی حیثیت سے ان کے کریڈٹ پر بہت سے مثبت حوالے بھی موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ 9مئی کے واقعے نے جمہوریت پسند اور باشعور طبقات  کو بھی دوسروں کی مانند انتہائی دل گرفتہ اور رنجیدہ کیا، خصوصاً شہداء کے مجسموں اور یادگاروں کی بے حرمتی نے نہ صرف ان کے رنج و الم میں اضافہ کیا بلکہ عمران خان کے مقابل فوج کی حمایت میں قومی سطح پر ہمدردی کی جو طاقتور لہر اٹھی تو جمہوریت کے شدید حامی بھی اسی ’لہر‘کا نمایاں حصہ ہے۔

البتہ سیاسی اور جمہوری قوتیں اس مصنوعی سیاسی قلعے کے  ’انہدام‘  پر یقیناً شاداں ہیں کہ جمہوریت کے راستے میں کھڑی کی گئی ’دیوار‘ پر نہ صرف اس کے معمار خود ہی ہتھوڑے برساتے چلے  گئے بلکہ اسے بے مہر  موسموں کے سپرد بھی کر دیا۔ جسے لق و دق صحرا میں اب کچھ پر اسرار ہیولے چاٹ رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp