پاکستان کے ساحلی علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے بپر جوائے نامی سمندری طوفان کے ٹکرانے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ طوفان سے نمٹنے کے لیے حکومت ساحل نے قریب آبادی کے انخلا کے ساتھ ساتھ ریسکیو کے لیے تمام تر حفاظتی اقدامات کر رکھے ہیں۔
دفعہ 144 کا نفاذ
بلوچستان کے ساحلی علاقوں پسنی، اورماڑہ اور جیونی میں بھی بپر جوائے طوفان نے لوگوں میں خوف و ہراس مبتلا کر رکھا ہے۔ حکومتِ بلوچستان نے ساحلی علاقوں میں سمندری طوفان کے پیشِ نظر دفعہ 144 نافذ کردی ہے، جس کے تحت سمندر میں غوطہ خوری، ماہی گیری اور ساحل پر جانے سے متعلق پابندی عائد ہے۔
نیا الرٹ
سمندری طوفان بپر جوائے سے متعلق پی ڈی ایم اے نے نیا الرٹ جاری کرتے ہوئے آج اور کل حب اور لسبیلہ میں گرج چمک اور آندھی کے ساتھ موسلا دھار بارش کا امکان ظاہر کیا ہے۔ جب کہ ساحلی علاقوں حب، کنڈ ملیر، سونمیانی میں سمندری لہریں 2 میٹر تک بلند ہونے کا بھی امکان ہے۔
فاقوں کی نوبت آگئی ہے، ماہی گیر کی دُہائی
ایک جانب حکومت نے سمندری طوفان سے ہونے والے جانی و مالی نقصان پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے ہیں لیکن وہیں دوسری جانب ماہی گیر پر پابندی سے اس شعبے سے منسلک افراد پر فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے اورماڑہ سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر رفیق بلوچ نے کہا کہ حکومتی احکامات اور سمندری طوفان کے سبب گزشتہ 6 روز سے گھر پر ہی بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے گھر میں گندم کا ایک دانا تک نہیں بچا ہے۔
رفیق بلوچ کہتے ہیں کہ ماہی گیر روزانہ کی بنیاد پر سمندر سے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا رزق پیدا کرتے ہیں تاہم 6 روز سے کام نہ کرنے کی وجہ سے گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ حکومت نے ریلیف کیمپ قائم کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن اس وعدے کو وفا نہ کرسکی۔ ہم سمندری طوفان سے تو نہیں لیکن شاہد بھوک سے ضرور مر جائیں گے۔
اپنی مدد آپ
رفیق بلوچ کے مطابق حکومتی احکامات کے پیش نظر سمندر اور پھر ساحل سے اپنی کشتیاں ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت باہر نکالی جس پر 10 ہزار روپے کا خرچ آیا آگر کشتیوں کو حکومت سمندر اور ساحل سے نکالنے پر مدد کرتی تو ان پیسوں سے ہم اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکتے تھے۔ رفیق بلوچ حکومت سے ماہی گیروں کی مالی معاونت کرنے کی اپیل کی ہے۔
ماہی گیروں کو مدد کی ضرورت ہے
دوسری جانب گوادر ماہی گیر اتحاد لیبر یونین کے جنرل سیکرٹری یونس انور بلوچ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مکران ڈویژن کی بڑی آبادی ماہی گیری کے شعبے سے منسلک ہے۔ ان میں متعدد ماہی گیر معاشی طور پر مستحکم ہیں جب کہ 20 سے 25 فیصد ماہی گیر مالی اعتبار سے کمزور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سمندری طوفان کی اطلاعات ملتے ہیں بہت سے ماہی گیر اپنے رشتے داروں کے گھر منتقل ہو گئے تاہم چند ماہی گیر اب بھی اپنے گھروں میں موجود حکومتی امداد کی رہ دیکھ رہے ہیں۔ حکومت نے ریلیف کیمپ قائم کرنے کا اعلان کیا لیکن اب تک کسی قسم کا ریلیف کیمپ قائم نہیں کیا جا سکا۔
یونس انور کا کہنا تھا کہ چند ماہی گیر شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں حکومت کو جلد از جلد ان کی فلاح کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔