پشاور کے ایک پوش رہائشی علاقے حیات آباد میں ایک بچے نے ماں کو مسلسل تشدد سے بچانے کی خاطر اپنے باپ کو گولی مار کر زخمی کردیا۔
ڈی ایس پی حیات آباد محمد ارشد خان نے وی نیوز کو بتایا کہ مذکورہ واقعہ حیات آباد کے فیز سیون میں پیش آیا جس کی اطلاع ملنے پر پولیس نے جائے وقوعہ پہنچ کر زخمی ڈاکٹر کو اسپتال منتقل کر دیا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔
محمد ارشد خان نے بتایا کہ یہ گھریلو ناچاقی کا معاملہ ہے تاہم تفتیشی ٹیم نے جائے وقوعہ سے آلہ ضرر (پستول) اور گولی کے ایک خالی خول سمیت دیگر شواہد اکٹھے کرکے مزید تفتیش شروع کر دی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ کئی ماہ سے گھریلو ناچاقی چل رہی تھی اور لگتا ہے کہ بچے مسلسل لڑائی اور تشدد سے متاثر ہو رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اپنے ڈاکٹر باپ پر حملہ کرنے والے بچے کی عمر 10 سال ہے جس نے کچن میں ماں کو پٹتا دیکھ کر باپ پر فائرنگ کر دی‘۔
انہوں نے بتایا کہ زخمی ڈاکٹر نے حقائق چھپانے کے لیے پولیس کو غلط بیان دیا اور واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دینے کی کوشش کی تاہم تفتیش کے دوران 10 سالہ بیٹے اور چھوٹی بیٹی نے پولیس کو سارا ماجرا سنادیا اور ان کی نشان دہی پر پولیس نے پستول بھی برآمد کر لیا۔
ڈی ایس پی کے مطابق بچوں نے پولیس کو بتایا کہ گھر میں لڑائی معمول بن گی تھی اور ماں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پولیس نے بچے کو شامل تفتیش کرکے تحقیقات شروع کر دی ہے تاہم عمر کم ہونے کی وجہ سے بچے کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
ماں باپ کے درمیان جھگڑے بچوں پر کیا اثر ڈالتے ہیں؟
بچوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گھریلو لڑائی جھگڑوں کا بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے جس سے ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔
عمران ٹکر کا کہنا تھا کہ ’ایسے حالات میں بچے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ وہ ڈر اور خوف کا بھی شکار ہو جاتے ہیں‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بچے بدلہ لینے کی اگ میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں اور اگر وہ ان کے بس میں نہ ہو تو پھر وہ اپنے سے چھوٹوں پر تشدد کرتے اور غصہ نکالتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسے بچے معاشرے سے الگ ہو جاتے ہیں اور تنہائی میں چلے جاتے ہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے بچوں کو بھوک بھی نہیں لگتی اور ان کی زندگی متاثر ہو جاتی ہے۔
عمران ٹکر نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے اور میاں بیوی ان کے سامنے لڑائی جھگڑا کرتے اور ایک دوسرے پر ہاتھ اٹھاتے ہیں اور ایسی باتیں بچوں کے ذہنوں پر نقش ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بڑے ہو کر خود بھی ویسی ہی حرکتیں کرتے ہیں۔