پاکستان نے حال ہی میں روس سے تجارتی تعلقات بڑھاتے ہوئے ایک لاکھ ٹن خام تیل خریدا ہے جس میں سے 45 ہزار ٹن تیل پاکستان پہنچ چکا ہے، پاکستان نے یہ خریداری ڈالر کے بجائے چینی کرنسی میں کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا روس اور چین سے تجارتی تعلقات بڑھانے کا مطلب یہ لیا جائے کہ پاکستان نے امریکی بلاک چھوڑ کر روس اور چین کے بلاک میں شمولیت اختیار کر لی ہے؟ نیز کیا پاکستان نے امریکا کے لیے اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کر دی ہے؟
ان اہم سوالات کے جواب جاننے کے لیے وی نیوز نے سابق پاکستانی سفیر کے علاوہ خارجہ امور پر نظر رکھنے والے چند تجزیہ کاروں کی رائے معلوم کی، جو قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
امریکا سے دوستی کرکے پاکستان دنیا سے الگ ہو رہا تھا
سابق سفیر اور ماہر امور خارجہ ظفر ہلالی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کچھ اچھے نہیں ہیں، امریکا کا ساتھ دے کر پاکستان دنیا سے الگ ہوتا جا رہا تھا، پاکستان کے معاشی حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ملک کسی بھی وقت ڈیفالٹ کر سکتا ہے، اگر ایسا ہو گیا تو پاکستان کو کوئی ملک ادویات تک بھی نہیں دے گا۔
ثابت کرنا ہوگا کہ ہم امریکا کے بغیر بھی ترقی کر سکتے ہیں
انہوں نے کہا کہ امریکا کے ساتھ تعلق رکھنے اور امریکی بلاک کا حصہ بننے سے پاکستان کو بہت سے نقصانات کا سامنا رہا ہے، اب وقت ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات ختم ہو جانے چاہئیں اور دونوں ممالک کے درمیان خوش اسلوبی سے ’Friendly Divorce‘ ہو جانی چاہیے، پاکستان کو ثابت کرنا ہوگا کہ ہم امریکا کی مدد کے بغیر بھی ترقی کر سکتے ہیں۔
سی پیک بھی سست روی کا شکار ہے
سابق سفیر ظفر ہلالی نے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات میں جو پیشرفت ہونی چاہیے تھی وہ نہ ہو سکی ہے، سی پیک بھی سست روی کا شکار ہے، چین کی مدد سے پاکستان کو زراعت، بجلی اور پانی کے منصوبوں میں بہتری آنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
کسی بھی خاص ملک کا ساتھ دینا قومی مفاد میں نہیں
تجزیہ کار سید محمد علی نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی باہمی مخاصمت کا نہیں بنے گا، کسی بھی خاص ملک کا ساتھ دینا قومی مفاد میں نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور روس کے درمیان تجارتی تعلقات میں بہتری آئی ہے، جب کہ پاکستان کی امریکا کے لیے خارجہ پالیسی مزید واضح ہو گئی ہے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر حال ہی میں پی ایم اے پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب میں کہ چکے ہیں کہ پاکستان کسی عالمی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔
امریکا و روس دونوں کے ساتھ تعلقات ضروری ہیں
پاکستان کا روس کے ساتھ توانائی کے شعبوں میں تجارتی تعلق بڑھ رہا ہے جب کہ امریکا کے ساتھ سلامتی اور تجارتی تعلقات ہیں، امریکا اب پاکستان کی سب سے بڑی تجارتی منڈی بن چکا ہے، پاکستان کے لیے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنا ضروری ہے۔
پاکستان نے امریکی پالیسی کی حمایت کی اور نقصان اٹھایا
سابق سفیر لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درینہ تعلقات ہیں، پاکستان نے ماضی میں کئی مواقع پر امریکا کا ساتھ دیا ہے، جب افغانستان میں طالبان کا قبضہ ہوا تو پاکستان نے امریکا کی پالیسی کی حمایت کی جس سے پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا ہے، دوسری جانب ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی اور پھر آپریشن میں بھی پاکستان نے امریکا کی مدد کی، اس کے جواب میں امریکا نے بھی پاکستان کی امداد بحال کی ہے۔
امریکا کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے
لیفٹیننٹ جنرل طلعت مسعود نے کہا کہ 1965ء کی جنگ میں امریکا نے پاکستان کی امداد نہیں کی، اور چین نے پاکستان کی مدد کی، اس سے پاکستان اور چین کی دوستی کی بنیاد بنی اور اب یہ دوستی زیادہ مضبوط ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تو امریکا کے ساتھ بہت تعاون کر چکا ہے لیکن امریکا کا زیادہ جھکاؤ بھارت کی جانب ہے، امریکا اور بھارت دونوں مل کر چین کو معاشی طور پر زیر کرنا چاہتے ہیں۔