آنے والے کسی طوفان کا رونا رو کر !

پیر 19 جون 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 گزشتہ ایک ہفتے سے ہر گھر، خاص کر کراچی میں ’بپر جوائے‘ کا چرچا ہے۔ بحیرہِ عرب میں بننے والے سمندری طوفان  کو بپر جوائے کا نام دیا گیا ہے جو ایک بنگالی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’تباہی‘ ہے۔

بنیادی طور پر اس سمندری طوفان کے پاکستان اور بھارت کی ساحلی پٹی سے ٹکرانے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس طوفان کو  سندھ میں کراچی اور کیٹی بندر، جب کہ بھارتی ریاست گجرات سے ٹکرانا تھا۔

شکر ہے کہ کراچی اور کیٹی بندر جیسی غربت کی ماری آبادی سے طوفان کا خطرہ اس بار بھی ٹل گیا۔ وللہ اعلم اس کے پیچھے کس کی کرامت ہے، تاہم میر تقی میر خوب کہہ گئے ہیں:

یہ تَوَہُّم کا کارخانہ ہے

یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

اس طوفان کے آنے سے چند روز قبل ہی اس ملک پر عوام مخالف بجٹ کا طوفان گزر چکا ہے۔ اس بجٹ کے آگے بپر جوائے کی بپھری لہریں اور ہوا کے جھکڑ کیا بیچتے ہیں؟

سچ یہ ہے کہ طوفان سے پہلے ہی اس ملک میں تباہی پھیر دی گئی ہے۔

قدرتی آفات ہوں یا ناگہانی حادثات، ان سے مکمل بچاؤ ممکن نہیں۔پھر ایک پاکستان ہی نہیں بلکہ ساری دنیا ان آفات سے نبرد آزما ہے۔

سانحہ یہ نہیں کہ قدرتی آفات نے ملک کو کئی سال سے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ اس کے تدارک کے لیے کیا کوئی غیر معمولی وسائل مہیا کیے گئے ہیں؟ ۔۔۔ جواب ہے ۔۔۔ نہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا 24 کروڑ کی آبادی والے ملک میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے سول ڈیفیس یا شہری دفاعی نظام موجود ہے؟ ۔۔۔۔اس بار بھی جواب ہے ۔۔۔ نہیں۔

جدید مشینری مثلاً  کرینیں، آگ بجھانے کے آلات، بلڈوزر، فائر بریگیڈ، ایمبولینس ، اور سیلابی پانی کو کھینچنے والی مشینیں، ایک لمبی فہرست ہے ایسے آلات اور مشینوں کی جو ان ہنگامی صورتحال سے بچاؤ یا حادثات رونما ہونے کے بعد ضرورت کی حامل ہوتی ہیں لیکن یہ سب کچھ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی ہی نہیں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد تک میں ناپید ہیں، ایسے میں چھوٹے شہروں ، قصبوں اور دیہات کا تو خدا ہی حافظ ہے۔

فرض کریں یہ سمندری طوفان کراچی کی ساحلی پٹی سے ٹکرا جاتا یا خدا نخواستہ ترکیہ جیسا زلزلہ ہمارے بسے بسائے شہروں  کو مسمار کر دیتا کیا یا پھر کینیڈا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کا سا معالہ ہمارے یہاں رونما ہو جاتا تو کیا ہوتا؟

کوئی ہے تیاری ایسے حادثات سے نمٹنے کی؟

اس کا سادہ سا جواب ہے ۔۔۔۔ بالکل بھی نہیں۔

حالیہ سیلاب ہو یا 2005ء کا زلزلہ، ہم اپنی آنکھوں ریاست اور اس کے اداروں کا بانچھ پن دیکھ چکے ہیں۔ ابھی تک تو ان علاقوں میں تعمیری کام بھی شروع نہیں کیے جاسکے جو پچھلے سال سیلاب سے متاثر ہوئے تھے۔ آج بھی ان غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں جن کے گھربار، مویشی، زمینیں حتیٰ کہ بچے بھی سیلاب کی نذر ہوگئے تھے۔

خوف آتا ہے جب بھی قدرتی آفات کی پیش گوئیاں کی جاتی ہیں، کیونکہ ہمارے پاس نہ وسائل ہیں نہ عوام میں شہری دفاع کا شعور۔ نہ حکومتوں کو ان سانحات کی روک تھام سے غرض ہے اور نہ ہی توفیق کہ بجٹ میں عوامی فلاح وبہبود کے لیے اتنا حصہ ہی مختص کر دیں جو اُن کا بنیادی حق ہے۔

بات یہ ہے کہ اب بجٹ میں صحت، تعلیم ، فراہمی و نکاسی آب کی مد میں اضافہ دیوانے کا خواب ہو کر رہ گیا ہے۔

ترکیہ کا، حالیہ زلزلہ کے بعد ان تباہ شدہ شہروں کے ترقیاتی عمل کو سرفہرست رکھنا اس لیے ممکن ہوا کہ ترکیہ کے ریاستی اداروں کی پہلی ترجیح بجٹ میں ایسی قدرتی آفات کے بعد بحالی کے لیے ایک بڑا حصہ مختص کر رکھنا تھا۔

جس طرح موسم گرما میں دنیا کے بڑے اور گھنے جنگلات میں آگ لگنا اب معمول ہو گیا ہے۔ اسی طرح سیلاب بھی ہر سال آنے لگے ہیں ۔ لیکن کیا ان حالات کے ہوتے ریاستوں کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنا زیب دیتا ہے؟

ان ناگہانی آفات کے سدباب کے لیے تمام ممالک کو نہ صرف سائنسی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اپنے قومی اخراجات کو ان غیر معمولی حالات سے بچاؤ پر صرف کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم فلاحی ریاست کے بجائے دفاعی ریاست کا روپ دھار چکے ہیں۔ لیکن حالیہ قدرتی واقعات کے پیش نظر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ دوسرے ممالک کی فوج سے دو بدو جنگیں کرنے کا دور اب قصہ پارینہ ہو چکا۔

اب جنگی صورتحال ایسے قدرتی آفات کا نام ہے جس کے لیے بجٹ میں حصہ ہر آنے والے سال میں بڑھانا ضروری ہو گا،  ورنہ خاکم بدہن اس ملک کو کوئی زلزلہ یا بپر جوائے نہیں یہ مہنگائی، نفسانفسی اور عوامی حقوق کی پامالی لے ڈوبے گی۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اس لیے بے حس ہو چکے ہیں کہ ریاست اپنی عوام کے حقوق اور ذمہ داریوں سے ایک حد تک دستبردار ہو چکی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp