پاکستان میں موسم گرما کا آغاز ہو چکا ہے اور گرمی کی شدت میں اضافے کے باعث لوڈ شیڈنگ بھی بڑھ گئی ہے جس کے بعد شہری یو پی ایس اور اس کی بیٹریاں خریدنے پر مجبور ہیں لیکن بیٹریوں کی قیمتوں میں تقریبا 35 فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے جس کے بعد اب اندھیرے اور موسم کی شدت سے بچنے کا یہ طریقہ بھی عام شخص کی پہنچ سے دور ہوچکا ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسلام آباد میں تقریبا پچھلے 48 برس سے بیٹریوں کا کام کرنے والے محمد شفیع اللہ نے بتایا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں رواں برس بیٹریوں کی قیمت میں تقریبا 35 سے فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے جس س کی سب سے بڑی وجہ لیڈ ہے کیونکہ اس کی درآمد پر پابندی ہونے کے باعث یہ ملک میں منگوایا نہیں جا رہا۔
محمد شفیع نے کہا کہ اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان میں لیڈ کی قیمت بڑھادی گئی ہے اور من مانے پیسے وصول کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے مینیوفیکچرر مجبور ہے۔ انہوں نے مزید کہا بیڑیاں مہنگی ہونے کے باعث ان کی فروخت میں بھی 25 سے 30 فی صد تک کمی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیٹریوں کی بلیک مارکیٹنگ نہیں ہوتی مگر دکاندار فراڈ کرنے لگتے ہیں کیوں کہ اکثر دکاندار چھوٹی بیٹریوں پر بڑی بیٹری کا اسٹیکر لگا کر پکڑا دیتے ہیں جو کہ مارکیٹ میں بہت عام ہوتا ہے اور اس بات کا پتا عام خریدار کو نہیں چلتا۔
شاہد محمود بھی بیٹریوں کے کاروبار سے تقریبا پچھلے 13 برس سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بیٹریوں کی قیمتوں کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ برس سے موازنہ کیا جائے تو اس بار بیٹریوں کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے 2022 کی بیٹریوں کی لسٹ دکھاتے ہوئے بتایا کہ جو بیٹری سنہ 2022 میں 12 ہزار روپے کی تھی وہ اس سال ریٹ لسٹ میں 26 ہزار روپے کی ہے اور ان قیمتوں کی بڑھنے کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اب تک کے اپنے کیریئر میں بیٹریوں کی قیمت میں دوگنا اضافہ پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں۔
شاہد محمود کا کہنا تھا کہ لوگوں کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے اور یوں تو خریداری کی نیت سے لوگ آتے ہیں لیکن ریٹ پوچھ کر واپس چلے جاتے ہیں کیوں کہ دگنی قیمت کے باعث بیٹریاں ان کی قوت خرید سے باہر ہوچکی ہیں۔
بلیک مارکیٹنگ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے شکایت پچھلے سال بہت زیادہ تھی اور کمپنیاں خود اس میں شامل تھیں کیوں کہ وہ بڑے ڈیلرز کو بیٹریاں دے رہی تھیں جو چھوٹے ڈیلرز کے پاس پہنچ نہیں رہی تھیں جس کی وجہ سے پچھلے سال بیٹریاں 5 سے 7 ہزار روپے مہنگی فروخت ہوئیں۔
مارکیٹ میں اپنے گھر میں لگے یو پی ایس کی بیٹری کی خریداری کے لیے آنے والی اسلام آباد کی رہائشی سائرہ نے وی نیوز کو بتایا کہ بیٹریوں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو بیٹری انہوں نے ایک سال قبل 15 سے 18 ہزار روپے کی لی تھی آج وہی ساڑھے 38 ہزار روپے کی مل رہی ہے لیکن وہ انہیں خریدنی ہی ہوگی کیوں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے یو پی ایس کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا۔
سائرہ نے کہا کہ ’کل رات بھی تقریبا 4 گھنٹے بجلی غائب رہی، ایسی صورت میں میرے بچے رات کو سو نہیں پاتے اور پھر ان کا صبح سویرے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی کا بہت زیادہ حرج ہو رہا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کافی عرصے سے سوچ رہی تھیں کہ یو پی ایس کی بیٹری لا کر یو پی ایس آن کیا جائے لیکن قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے وہ بیٹری خرید نہیں پا رہی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اب کہیں جا کر مشکلوں سے پیسوں کا انتظام کیا ہے تاکہ بچوں کی تعلیم کا مزید حرج نہ ہو۔