نجم سیٹھی کی ’سفارت کاری‘ بہرحال کچھ رنگ لائی اور پاکستان ایشیا کپ کے ’بھاگتے چور کی لنگوٹی‘ بچانے میں کامیاب رہا۔ مگر یہ کامیابی ایسی مبہم ہے کہ بقول غالب:
حیراں ہوں روؤں دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں
اگرچہ پاکستان میں ہائبرڈ اشیا کا تجربہ کچھ ایسا بارآور نہیں رہا مگر نجم سیٹھی کے مطابق ان کے ہائبرڈ ماڈل کی افادیت مستقبل میں جا کر مزید واضح ہو گی۔ سیٹھی کے ہائبرڈ ماڈل کی بدولت ایشیا کپ کے 13 میچز میں سے 4 پاکستان کے حصے میں آئے ہیں جبکہ باقی ماندہ 9 میچز سری لنکا میں کھیلے جائیں گے۔
صحافتی اسلوب اور بیوروکریٹک سفارتکاری کا وسیع و عریض تجربہ استعمال میں لاتے ہوئے نجم سیٹھی میڈیا کے محاذ پر اپنی بھاگ دوڑ کی مثبت تصاویر اجاگر کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ حالیہ ’سفارت کاری‘ میں بھی انہوں نے شام سویرے مختلف ٹی وی اسکرینوں کو رونق بخشی اور میڈیا کا محاذ گرما کر بھارتی کرکٹ بورڈ پر ’دباؤ‘ بڑھاتے رہے۔
سیٹھی کے اس ’دباؤ‘ کا مثبت نتیجہ یہ رہا کہ پہلے پہل صرف خود پاکستان نہ آنے کی دھمکی دینے والے بھارت نے پورا ٹورنامنٹ ہی پاکستان کی میزبانی سے چھین لینے کی دھمکی دی اور پھر اس بھاگتے چور کے تن سے 4 میچزکی لنگوٹی اتار کر نجم سیٹھی کے حوالے کر دی کہ وہ قوم کو ’خوشخبری‘ سنا سکیں۔ گویا پنجابی محاورے کے مطابق ’موت دکھا کے بخار پہ راضی‘ کر لیا گیا۔
مگر قوم کے لیے اس ’خوشخبری‘ میں خبریت صرف اتنی ہی تھی کہ پورا ایشیا کپ سری لنکا منتقل ہونے سے بچ گیا اور رسمی ہی سہی، ٹورنامنٹ کا آغاز پاکستان سے ہو گا۔ اور دھیمے سروں کی ابتدائی موسیقی کے بعد جب ٹورنامنٹ کا ماحول گرم ہونے لگے گا تب وینیوز پاکستان کے نہیں بلکہ سری لنکا کے ہوں گے۔
نجم سیٹھی یہ دلیل لاتے ہیں کہ اگر پاکستان ہائبرڈ ماڈل کی تجویز نہ لاتا تو پورے ایونٹ کی ہی میزبانی سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کا آئی سی سی پر اثرورسوخ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور ایشین کرکٹ کونسل میں تو یہ اثر سوا سیر ہے۔ مگر نجم سیٹھی یہ نکتہ نجانے کیوں بھول گئے کہ بھلے ورلڈ کپ ہو، بھلے ایشیا کپ، دونوں ٹورنامنٹس میں جان صرف پاک بھارت مقابلے ہی ڈالتے ہیں۔
سو، اگر بھارتی کرکٹ بورڈ اپنی ڈیڑھ ارب آبادی کی مارکیٹ کی تلوار ایونٹ منتظمین کے سر پر لٹکا کر اپنی من مانی کر سکتا ہے تو پی سی بی کو کیا امر مانع ہے کہ تمام کرکٹنگ اقوام میں سے 22 کروڑ آبادی کی دوسری بڑی مارکیٹ ہونے کا کوئی وزن ہی قائم نہیں کر پاتا۔
بنیادی طور پر یہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کمزور انتظامی ڈھانچہ، بارہا بدلتے سیاسی چیئرمین اور ایک مبہم آئین ہے جسے ہر چیئرمین اپنی مرضی سے موم کی ناک بنا سکتا ہے۔ اپنے پہلے دور میں نجم سیٹھی نے ایک آئین مرتب کیا جسے احسان مانی نے آتے ہی یکسر بدل کر ایک نیا آئین نافذ کر دیا اور رمیز راجا نے اس آئین کو اپنی مرضی کی ترامیم سے جاری رکھا مگر پھر نجم سیٹھی آئے اور اسے معطل کر کے اپنا ہی وضع کردہ پرانا آئین پھر سے بحال کر دیا۔
ایک متنازع الیکشن کی بدولت پی سی بی کی کرسی پر براجمان نجم سیٹھی کو یہ اندیشہ بھی بھرپور تھا کہ اگر ذکا اشرف کی تعیناتی کی تلوار پھر سے ان کے سر پر لٹکنے لگی تو پی سی بی میں پھر وہی رسہ کشی شروع ہو جائے گی جو نواز شریف کے سابقہ دورِ حکومت میں دیکھنے کو ملی تھی، جہاں صبح اسلام آباد ہائی کورٹ ذکا اشرف کو بحال کرتی تو شام کو سپریم کورٹ ایک سٹے آرڈر کے توسط سے نجم سیٹھی کو بحال کر دیتی۔
پاکستان کرکٹ کی یہ بدقسمتی ہے کہ اس کرکٹ بورڈ کا پیٹرن ان چیف وزیرِاعظم پاکستان ہوا کرتا ہے۔ اگرچہ بطور پیٹرن ان چیف وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بیک جنبشِ قلم پی سی بی کا انتظامی حلیہ ہی بدل کر رکھ دے مگر وزیراعظم کو اتنا وقت میسر نہیں کہ وہ ورلڈ کپ کے حوالے سے پاکستان کی بھارت روانگی پر کوئی فیصلہ کر سکے۔
عموماً ورلڈ کپ کا شیڈول ایک برس پہلے ہی منظرِ عام پر آ جایا کرتا ہے مگر اس ورلڈ کپ کا ابھی تک کوئی شیڈول منظرِ عام پر نہیں آ سکا جسے 5 اکتوبر کو بھارت میں شروع ہونا ہے اور ڈرافٹ شیڈول پر بھی پی سی بی کوئی حتمی جواب دینے سے عاری ہے کیونکہ پاکستانی ٹیم کی بھارت روانگی کا فیصلہ پاکستانی حکومت کو کرنا ہے اور حکومت کو یہی معلوم نہیں کہ اقتدار کب تک ان کے پاس رہے گا۔ اور جب بھارت میں ورلڈ کپ کا آغاز ہو رہا ہو گا تب کون سی حکومت ہوگی؟۔
اگرچہ سیاسی منظرنامے پر بھی پاکستان کے ہاں بوالعجبیاں کچھ کم نہ تھیں مگر پی سی بی کی حالیہ کارکردگی اور نجم سیٹھی کی ’بار آور سفارت کاری‘ نے اس ماحول کو چار چاند لگا دیے ہیں جو ان 4 میچز کی صورت پاکستانی اسٹیڈیمز کو نصیب ہوں گے۔
شائقین کے پہلو سے یہ ایک نہایت مایوس کن صورت حال ہے کہ 2007 کے ایشیا کپ کے 16 برس بعد جب دوبارہ ایونٹ کی میزبانی پاکستان کے حصے آئی تو 4 دن کی چاندنی سے زیادہ ثابت نہ ہو پائی۔ پاکستانی میدانوں میں 4 روزہ چاندنی کے بعد ایشیا کپ کی پانچویں صبح کا سورج سری لنکن ساحلوں سے طلوع ہو گا۔
مگر نجم سیٹھی بہرحال اسی پر مطمئن ہیں کہ سری لنکن گراؤنڈز کے گیٹ پر موصول ہونے والی ٹکٹوں کی رقم پی سی بی کی ہی جیب میں جائے گی۔