پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 9ویں جائزے کی قسط کے لیے ہونے والے مذاکرات اب تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیانات سے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب بھی نہیں ہو سکیں گے۔
وی نیوز نے اس حوالے سے تحقیق کی کہ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کیا آپشن موجود ہیں؟ معاشی ماہرین کے مطابق ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان کے پاس ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کے علاوہ ایک اور پلان B بھی ہے۔
پاکستان کو نومبر تک ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے دوست ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے 4 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کو اپنی درآمدات پر کافی حد تک کمی کرنا ہو گی۔
مزید پڑھیں
ماہر معاشیات ڈاکٹر خاقان حسن نجیب نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین نویں جائزے کے مذاکرات کو کامیاب ہونا چاہیے، اگر آئی ایم ایف اور پاکستان کی ایک ارب ڈالر کی قسط کی ڈیل نہ ہو سکی تو پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے فوری طور پر 3 سے 4 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی یہ ضرورت چین اور سعودی عرب پوری کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی درآمدات کو مزید کم کرنا ہو گا، اگر ایسا نہ ہوا تو ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر خاقان حسن نجیب نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور اتحادیوں کی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے چاہییں، اس سے دوست ممالک کا پاکستانی معیشت پر اعتماد بحال رہے گا جبکہ اگست میں قائم ہونے والی نگران حکومت کو بھی آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری رکھنے چاہییں۔
پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی ہو گا
ماہر معیشت ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل کرنے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی اور پلان B نہیں ہے، چین اور سعودی عرب کی امداد سے پاکستان کو صرف 42 دن تک کا فائدہ ہو سکتا ہے، نگران حکومت اور پھر عام انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کو ہر حال میں عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ڈیل کرنا ہو گی۔
آئی ایم ایف کے بغیر کیسے معیشت میں بہتری آ سکتی ہے؟
ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے آزاد ہونے کے لیے اپنے اخراجات میں بڑے پیمانے پر کمی کرنا ہو گی، 18ویں ترمیم کے بعد وفاق میں کثیر تعداد میں وزارتوں کی ضرورت نہیں ہے، ان وزارتوں کو ختم کرنا چاہیے، پاکستان کو اپنی درآمدات میں بہت حد تک کمی لانا ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ انتہائی ضروری اشیا کے علاوہ تمام اشیا کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کرنا ہو گی۔ دوسری جانب حکومت نے جو مقامی بینکوں سے قرضے لیے ہیں ان کی بھی ری شیڈیولنگ کی جائے، ان اقدامات سے معیشت پر اضافی بوجھ میں کمی آ سکے گی۔