یونان کشتی حادثہ: پاکستانی مسافروں کے ساتھ کیا امتیازی سلوک ہوا ؟

اتوار 18 جون 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یونان کے پانیوں میں ڈوبنے والی کشتی کے بارے میں نئے حقائق سامنے آئے ہیں جن کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کو زبردستی کشتی کے سب سے نچلے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا، جب کشتی ڈوبنے لگی تو باہر نکلنے کی کوشش کے دوران عملے نے پاکستانی مسافروں سے بد سلوکی بھی کی۔

برطانوی اخبار ’ دی گارڈین‘ نے خبر دی ہے کہ بدھ کو یونان کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی کے بارے میں نئی تفصیلات سامنے آئی ہیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ زنگ آلود اور انتہائی بوسیدہ تھی۔

یونانی محافظوں نے اپنا کردار چھپانے کی کوشش کی

رپورٹ کے مطابق جب یہ سوالات اٹھنا شروع ہوئے ہیں کہ آیا یونانی ساحلی محافظوں نے اس سارے سانحے میں اپنے کردار کو ’چھپانے‘ کی کوشش کی ہے؟ تو اس بارے مزید تفصیلات سامنے آئی ہیں۔کہا جا رہا ہے حادثے میں بچ جانے والوں نے جو اعداد و شمار بتائے ہیں ان کے مطابق اب بھی تقریباً 500 افراد لاپتہ ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کشتی میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے جن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ کشتی کے عملے نے انہیں ایک جگہ بند کر کے ان کی نقل و حرکت پر پاپندی عائد کر دی تھی اور یہ کہ کچھ ممالک کے شہریوں کو کشتی کے سب سے خطرناک حصے میں بند کر دیا گیا تھا۔

پاکستانی مسافروں کو کشتی کے سب سے نچلے حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا: عینی شاہدین

دی گارڈین کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کشتی کے حادثے میں زندہ بچ جانے والے عینی شاہدین نے جو شہادتیں دی ہیں ان میں سے کچھ معلومات افشاں ہوئی ہیں۔ ان شہادتوں کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کو کشتی کے سب سے نچلے اور خطرناک حصے میں جانے پر مجبور کیا گیا تھا جہاں سے باہر نکلنے اور کشتی کے ڈوب جانے کی صورت میں بچ نکلنے کے امکانات بہت محدود تھے۔

جب کہ دیگر ممالک کے شہریوں کو سب سے اوپر والے حصے میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی جہاں کشتی کے ڈوبنے کے نتیجے میں ان کے بچنے کے امکانات بہت زیادہ تھے۔

دی گارڈین کے مطابق بچ جانے والے افراد کی شہادتوں سے پتہ چلتا ہے کہ عملے نے اوورلوڈ کشتی پر مردوں سے خواتین اور بچوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایک الگ جگہ بند کر دیا تھا ۔

کشتی کے عملے نے پاکستانی تارکین وطن سے بد سلوکی کی: عینی شاہد

دی گارڈین نے آبزرور کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو کشتی کے سب سے نچلے حصے میں رکھا گیا اور یہ کہ جب کشتی کو حادثہ پیش آنے لگا تو ان پاکستانیوں نے بچنے کے لیے کشتی کے اوپر والے حصے میں آنے کی کوشش کی لیکن عملے کے ارکان نے ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کی ۔

واضح رہے کہ اس وقت تک  کی رپوٹس میں زندہ بچ جانے والوں میں کوئی خاتون یا بچہ شامل نہیں ہے جب کہ ہفتے کے روز پاکستانی حکام نے جزیرہ نما پیلوپونیز میں زنگ آلود اور بوسیدہ کشتی کے ڈوبنے سے اپنے سینکڑوں شہریوں کے جاں بحق ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔

کشتی میں آزاد کشمیر کے 135 شہری بھی سوار تھے

مقامی میڈیا کی روپوٹس کے مطابق اس حادثے میں کم از کم 298 پاکستانی جاں بحق ہوئے جن میں سے 135 کا تعلق آزاد کشمیر سے بتایا جارہا ہے۔

دی گارڈین کے مطابق ایک اندازے کے مطابق جہاز میں تقریبا 400 پاکستانی سوار تھے لیکن پاکستان کی وزارت خارجہ نے اب تک اس بات کی تصدیق کی ہے کہ زندہ بچ جانے والے 78 افراد میں سے صرف 12 کا تعلق پاکستان سے تھا۔

کشتی بوسیدہ تھی، انجن فیل ہوا، مسافروں نے مدد کی اپیل بھی کی

شہادتوں سے پتا چلتا ہے کہ کشتی کی حالت اتنی خراب تھی اور اتنی اوور لوڈ تھی کہ ڈوبنے سے قبل ہی اس پر سوار 6 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔

ادھر مراکشی نژاد اطالوی سماجی کارکن نوال صوفی نے حادثے کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں جن میں انہوں نے کہا ہے کہ مسافر کشتی ڈوبنے سے ایک روز قبل مدد کی درخواست کر رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ’میں یہ گواہی دینے کے لیے تیار ہوں کہ کشتی کے مسافر کسی بھی اتھارٹی سے مدد کی اپیل کر رہے تھے کہ انہیں حادثے سے بچایا جائے۔

لیکن یونانی حکومت نوال صوفی کے اس بیان کی تردید کر رہی ہے ۔ یونان حکومت کا تردید میں کہنا ہے کہ مسافروں نے ساحلی محافظوں سے مدد کی کوئی درخواست نہیں کی کیوں کہ وہ اٹلی جانا چاہتے تھے۔

یونانی حکام اور زندہ بچ جانے والوں کے بیانات میں تضاد

دی گارڈین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی گواہی سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کشتی کا انجن ڈوبنے سے چند دن پہلے فیل ہو گیا تھا۔ اس حوالے سے کشتی میں سوار زندہ بچ جانے والے ایک غیر ملکی شہری نے یونان کے محافظوں کی تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان دیا ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کشتی میں 700 افراد سوار تھے’ ہم نے جمعہ کی علی الصبح سفر شروع کیا اور 3 دن تک مسلسل سفر کرتے رہے اور پھر اچانک کشتی کا انجن فیل ہو گیا۔

دی گارڈین کے مطابق کشتی کے ڈوبنے کی وجوہات کے بارے میں بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کشتی الٹنے کی وجہ کیا تھی۔؟ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ بدھ کی علی الصبح ساحلی محافظوں کی جانب رسا باندھے جانے کی وجہ سے کشتی الٹ گئی۔ یونانی حکام ان الزامات کی تردید کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے بھی متضاد بات سامنے آئی کہ پہلے تو ساحلی محافظ نے کہا کہ اس نے کشتی سے ‘محتاط فاصلہ’ برقرار رکھا ہے، لیکن جمعے کے روز ایک سرکاری ترجمان نے تصدیق کی کہ کشتی کو قابو کرنے کے لیے ایک رسا پھینکا گیا تھا۔

وزن اچانک کیوں تبدیل ہوا، کیا کشتی میں خوف و ہرا س تھا: مورس

جرمنی کی اوسنابرک یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فارمائیگریشن ریسرچ اینڈ انٹر کلچرل اسٹڈیز کے مورس سٹیئرل کا کہنا ہے کہ ایک ساحلی محافظ نے وزن میں اچانک تبدیلی کی بھی بات کی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزن میں اچانک تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ کیا جہاز میں خوف و ہراس تھا؟ کیا انہیں کوئی مدد فراہم کرنے کی کوشش کے دوران حادثہ ہوا؟ یا کشتی کو رسے سے باندھا گیا تھا اور اس باندھنے کے نتیجے میں کشتی ڈوب گئی؟۔

 ان کا کہنا ہے کہ اس بارے یہ بھی سوالات موجود ہیں کہ کیا یونانی ساحلی محافظوں کو بوسیدہ کشتی کو محفوظ مقام تک پہنچانے کے لیے پہلے ہی مداخلت کرنی چاہیے تھی؟

ادھر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مداخلت میں ناکامی کو نااہلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ سٹیرل نے یورپی یونین کے بہت سے ممالک پر الزام عائد کیا کہ وہ اس طرح کے حادثات سے نظریں چرا رہے ہیں۔

 درحقیقت یہ ممالک تارکین وطن کی کشتیوں سے اپنی نظریں اس لیے چرا رہے ہیں تاکہ انہیں امدادی کارروائیوں میں شامل نہ کیا جائے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ایک ایسی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے، جو فعال طور پر اور شعوری طور پر سمندری حادثات سے بچاؤ کی کوششوں کو سست کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ پیر کو مسافر کشتی کے مبینہ مصری اسمگلر گروہ کے 9 مشتبہ افراد عدالت میں پیش ہوں گے۔

واضح رہے کہ بدھ 14 جون کو یونان کے ساحل پر تارکین وطن کی کشتی کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں 500 سے زائد افراد سوار تھے۔ ان میں سے 104 افراد کو ریسکیو کر لیا گیا تھا جن میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ لاپتا ہونے والے افراد میں پاکستان کے 298 شہری شامل ہیں۔

اب یونان میں کشتی حادثے کے بعد جاری ریسکیو آپریشن کو روک دیا گیا ہے۔ یونانی حکومت کی جانب سے لاپتا ہونے والے تمام افراد کو مردہ قرار دےد یا گیا ہے۔

یونان کشتی حادثہ، وزیراعظم کا 19 جون کو یوم سوگ کا اعلان، تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم

دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے یونان کشتی حادثہ کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے اور 19 جون کو ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ پیر کو قومی پرچم سر نگوں رہے گا اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp